شام اور لبنان کی سرحد کے قریب 'گولان پہاڑیوں' پر رینیویبل انرجی یعنی تجدید توانائی کے لیے ٹربائن کو نصب کرنے کا کام جاری ہے۔
اسرائیل کے لیے یہ علاقہ توانائی کے لیے انتہائی موضوں اور ضروری ہے، تاہم بیشتر مقامی افراد اس اسکیم کی مخالفت کر رہے ہیں۔
مقامی کسانوں کا ماننا ہے کہ اسرائیلی حکومت کے یہ پلانٹز ان کی زرعی زمینوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔
مقامی کاشتکار نورالدین مسعود کا کہنا ہے کہ یہ زمین ان کی زندگی ہے۔ زمین کی قیمت ان کی زندگی کے برابر ہے۔ اگر زمین ختم ہو جائے گی تو ان کی زندگی بھی ختم ہو جائے گی۔
ان ٹربائنز کو زرعی زمینوں کے درمیان تعمیر کیے گئے کنکریٹ کی چھتوں پر نصب کیا جائے گا۔ ان میں سے ہر ٹربائن کی اونچائی 660 فٹ ہو گی۔ پہاڑی پر نصب کیے جانے والے 31 نئے ٹربائنز کو اب تک حکومت سے حتمی منظوری ملنا باقی ہے۔
وہیں دوسری جانب مقامی کسانوں کی مخالفت اس اسکیم کے لیے ایک نیا چیلنج پیدا کر سکتی ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے، جب اسرائیلی حکومت کو تجدید نوانائی کے منصوبے کے لیے عوام کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہو، بلکہ اس کے قبل بھی ایک دوسری جگہ یہودی برادری کی جانب سے اسی طرح کے منصوبے کی مخالفت کی گئی تھی۔
ایک دوسرے کاشتکار اور ایگریکلچر کلیکٹیو کے جنرل سیکریٹری ایمل مسعود کا کہنا ہے کہ وہ رینیویبل یا گرین انرجی کی مخالفت نہیں کرتے۔ وہ اپنے باغات پر ممکنہ خطرات کے پیش نظر اپنے حقوق کی تحفظ کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ اسکیم ان کے باغات کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ وہ اسے کسی بھی قیمت پر قبول نہیں کر سکتے۔
گولان پہاڑیوں پر دروز مذہب سے وابستہ بیشتر افراد کی آبادی سے یہاں کا معاملہ مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔
دروز شامی نسل کے باطنی اسماعیلی شیعوں کا ایک فرقہ ہے۔ ان کی تعداد بیسویں صدی کے وسط میں دو لاکھ تھی۔ اس مذہب میں لوگوں کی شمولیت سے دروزی افراد کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ سب سے زیادہ 6 لاکھ دروز شام کے مختلف حصوں میں آباد ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر افراد زراعت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔
اسرائیل میں تقریبا ڈیڑھ لاکھ دوزی رہتے ہیں، تاہم انہیں ووٹ کا حق حاصل نہ ہونے کی وجہ سے اسرائیلی پارلیمنٹ میں ان کی سیاسی نمائندگی نہیں ہے۔
اسرائیل میں ایسوسیشن برائے شہری حقوق کے وکیل آڈیڈ فیلر نے بتایا کہ ووٹ نہ دینے کی وجہ سے دروز قوم کے پاس کوئی سیاسی طاقت نہیں ہے۔ ان کی تعداد اتنی ہے کہ 120 سیٹوں میں سے ایک سیٹ جیتے کے قابل ہیں، لیکن ووٹ نہ دینے کی وجہ سے انہیں کوئی خاطر میں نہیں لاتا ہے۔
سنہ 1949 میں قائم ہونے والی جدید نسیٹ (اسرائیلی پارلیمنٹ) میں کُل 120 ارکان ہوتے ہیں، جنہیں ہر چار برسوں میں اسرائیلی عوام کے ذریعہ منتخب کیا جاتا ہے۔
گولان پہاڑیوں پر بشتر دروز افراد کے سیب چیری اور بادام کے باغات ہیں۔ اسی لیے ان کی کھیتوں کے درمیان ٹربائنز کو نصب کرنے سے انہیں اعتراض ہے۔
اسرائیل میں گرین انرجی ایسوسیشن کے ڈائریکٹر ایٹن پرناس کا کہنا ہے کہ اگر ایندھن کو جلائے بغیر یہ توانائی مہیا کیا جا سکتا ہے، تو یہ کسی بھی قومی یا بین الاقوامی تنازع سے بالاتر ہے۔ اس پرجیکٹ کے مخالفت کی وجہ سمجھ سے پرے ہے۔کیوں کہ اسکیم سے کمائی کرنے والے ہی، اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ سنہ 1967 میں اسرائیل اور عرب ممالک کے ساتھ جنگ کے دوران گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل نے قبضہ کر لیا تھا۔ بعد ازاں سنہ 1981 میں اسے اپنے ملک کا حصہ قرار دیا، تاہم اس حصے پر اسرائیلی خود مختاری کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر عدم منظوری کے باوجود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپریل ماہ سنہ 2019 میں گولان پہاڑیوں پر اسرائیلی خود مختاری کو تسلیم کیا تھا۔
گولان پہاڑیاں کیا ہیں؟
شام کے دارالحکومت دمشق سے تقریبا 60 کلو میٹر جنوب مغرب میں واقع ایک پہاڑی سطح کو گولان پہاڑی کہا جاتا ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے ھضبۃ الجولان یعنی 'گولان ہائٹز' کے گرد جو ممالک آباد ہیں ان میں لبنان، اردن اور اسرائیل شامل ہیں۔
گولان پہاڑیوں کا مکمل رقبہ 1800 مربع کلو میٹر ہے، جس میں 1200 مربع کلو میٹر پر اسرائیل، جبکہ 600 پر شام کا کنٹرول ہے۔
یہاں آباد 40 ہزار افراد میں سے 20 ہزار اسرائیلی باشندے ہیں۔ ان میں 30 یہودی بستیاں بھی شامل ہیں۔ بڑی تعداد میں اسرائیلی دروز آباد ہیں۔
کچھ زمینداروں نے گولان کی پہاڑیوں میں ٹربائن کی حمایت میں معاہدوں پر دستخط بھی کیے ہیں، تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس وقت انہیں ان کے ممکنہ مضمرات سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔