سینکڑوں افراد اور رشتہ داروں نے ہفتے کے روز افغانستان کے شہر قندوز میں سید آباد مسجد کے باہر اسلامک اسٹیٹ کے خودکش حملے میں جاں بحق ہونے والوں کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔
مسجد میں اس وقت دھماکہ کیا گیا جب شیعہ برادری کے لوگ جمعہ کی نماز کے لیے جمع ہوئے تھے۔ اس حملے میں 50 سے زائد افراد ہلاک اور تقریبا 100 افراد زخمی ہوئے۔
ہلاک شدہ کے رشتہ دار حسین علی نے کہا کہ ہمیں جمعہ کی نماز کے دوران نشانہ بنایا گیا، انہوں نے ہمارے لوگوں کو خدا کے گھر کے اندر، مسجد میں شہید کیا۔ دھماکے میں بے شمار لوگ شہید ہوئے۔ شاید یہ 70 سے 100 کے درمیان ہے، کوئی بھی صحیح تعداد نہیں جانتا، اب بھی 10 سے 20 افراد لاپتہ ہیں۔"
جنازے میں شریک جان بحق ہونے والوں کے لواحقین نے کہا کہ ہم امارت اسلامیہ افغانستان سے درخواست کرتے ہیں کہ تمام مساجد اور اجتماعی مقامات بالخصوص شیعہ مساجد کی حفاظت پر خصوصی توجہ دیں کیونکہ ہم اقلیت میں ہیں۔ یہ پہلا سانحہ نہیں ہے اور یہ آخری بھی نہیں ہوگا ، یہ جاری رہ سکتا ہے۔''
اسلامک اسٹیٹ خُراسان کی جانب سے افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے نکلنے کے بعد یہ سب سے بڑا حملہ تھا۔ اس سے قبل بھی کابل کی ایک مسجد میں دھماکہ کیا گیا تھا جس میں کم سے کم 12 افراد ہلاک اور 35 افراد زخمی ہوئے تھے۔
- Kunduz Mosque Blast: یو این سربراہ اور یو این ایس سی نے دھماکے مذمت کی
- افغانستان معاشی بحران کے ساتھ ساتھ داخلی سکیورٹی کے مسائل سے بھی دوچار
- داعش سردرد ضرور ہے خطرہ نہیں: طالبان
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے شیعہ مسجد پر خوفناک حملے کی مذمت کی ہے اور سوگوار خاندانوں سے اظہار تعزیت کے ساتھ ساتھ زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا بھی کی۔
طالبان کے افغانستان پر مکمل کنٹرول کے بعد سے ہی ان کے خلاف داعش سے وابستہ عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔جس کی وجہ سے طالبان اور داعش کے درمیان وسیع تنازعہ کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ داعش ہمارے لیے کوئی خطرہ نہیں سر درد ضرور ہے۔