بنگلہ دیش کے سابق چیف جسٹس کو بدعنوانی کے الزام پر غیر حاضری میں 11 سال قید کی سزا سنا دی گئی جبکہ اپوزیشن جماعتوں اور ان کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ اس کے پسِ پردہ سیاسی محرکات ہیں۔
ڈان میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق 70 سالہ سریندرا کمار سنہا اس وقت سپریم کورٹ کے سربراہ تھے جب انہوں نے یہ فیصلہ جاری کیا تھا کہ پارلیمنٹ، ججز کو عہدے سے نہیں ہٹا سکتی۔ اس فیصلے کا وکلا نے خیر مقدم کیا تھا اور اسے عدلیہ کی آزادی کا تحفظ قرار دیا گیا تھا۔
سریندرا کمار سنہا نے یہ الزام لگایا کہ اس تاریخی فیصلے کے بعد انہیں عہدہ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، انھوں نے 2017 میں بنگلہ دیش چھوڑ دیا تھا اور اب وہ شمالی امریکہ میں مقیم ہیں جہاں مبینہ طور پر انہوں نے پناہ لی ہے۔
ان کے حامیوں کا کہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس کا ملک سے جانا ملک کی عدلیہ کی ساکھ کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا تھا اور حکومت پر ان کے پیچھے پڑنے کا الزام عائد کیا تھا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر آصف نظرُل نے کہا کہ ’یہ بالکل واضح تھا کہ حکومت ان سے ناراض تھی اور ان کی ساکھ ختم کرنے پر مصر تھی‘۔
یہ بھی پڑھیں
پراسیکیوٹر خورشید عالم خان نے بتایا کہ ڈھاکہ کی خصوصی عدالت کے جج شیخ نظم العالم نے جمعرات کو فیصلہ سناتے ہوئے سریندرا کمار سنہا کو منی لانڈرنگ کے الزام میں 7 سال قید اور بھروسہ توڑنے کے الزام میں 4 برس قید کی سزا سنائی۔ انہوں نے کہا کہ ’اس فیصلے سے یہ ثابت ہوگیا کہ کوئی قانون سے بالاتر نہیں، غلط کام پر کسی کے خلاف بھی مقدمہ چلایا جاسکتا ہے‘۔
16 کروڑ 90 لاکھ کی آبادی والے سیکولر مسلم اکثریتی ملک میں سریندرا کمار سنہا پہلے ہندو چیف جسٹس تھے۔ بعد ازاں انہوں نے ’قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق اور جمہوریت: ایک ٹوٹا ہوا خواب‘ کے عنوان سے ایک کتاب بھی تحریر کی تھی۔ کتاب میں انہوں نے کہا تھا کہ ایک فوجی سیکیورٹی ادارے کی دھمکانے پر وہ استعفیٰ دینے اور ملک سے جانے پر مجبور ہوئے تھے۔
(یو این آئی)