ETV Bharat / international

افغانستان: پنجشیر میں لڑائی میں شدت، دونوں فریقین کا ایک دوسرے پر برتری کا دعویٰ

author img

By

Published : Sep 5, 2021, 10:24 AM IST

افغانستان کی وادی پنجشیر میں طالبان اور مزاحمتی اتحاد کی فورسز کے درمیان لڑائی میں شدت آئی ہے اور دونوں گروپ ایک دوسرے پر برتری کے دعوے کر رہے ہیں۔ پنجشیر افغانستان کا آخری صوبہ ہے جو طالبان کے کنٹرول سے باہر ہے اور حالیہ دنوں میں وہاں مزاحمتی محاذ اور طالبان کے درمیان خونریز جھڑپیں جاری ہیں۔

fighting intensifies in panjshir of afghanistan
پنجشیر میں لڑائی میں شدت

افغانستان میں پنجشیر کی وادی میں طالبان اور مزاحمتی اتحاد کے مابین لڑائی میں تیزی آ گئی ہے اور وادی پنجشیر پر کنٹرول کے لیے طالبان اور مخالف اتحاد کی فورسز میں لڑائی میں شدت کے بعد فریقین کے متضاد دعوے سامنے آ رہے ہیں۔ روئٹرز کے مطابق طالبان کے جنگجوؤں نے وادی پنجشیر پر قبضے کا دعویٰ کیا تھا تاہم مخالف اتحاد نے اس کی تردید کی۔

مزاحمتی تحریک کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ دشتِ ریوت کے علاقے میں طالبان فوجیوں کا محاصرہ کر لیا گیا ہے۔

اسپوتنک نے ہفتے کے روز افغان مزاحمتی فورسز کے حوالے سے بتایا کہ افغانستان کے شمال مشرقی صوبے پنجشیر کے مختلف اضلاع میں صبح سے تقریباً 600 طالبان کو مار دیا گیا ہے۔

مزاحمتی افواج کے ترجمان فہیم دشتی نے ٹویٹ کیا کہ ایک ہزار سے زائد طالبان پکڑے گئے ہیں یا خود ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ ترجمان نے مزید کہا کہ طالبان فورسز صوبہ کاپیسا اور پنجشیر کی سرحد پر دربند کی بلندیوں تک پہنچ گئے تھے لیکن انہیں پیچھے دھکیل دیا گیا۔

دریں اثنا علاقے میں بارودی سرنگوں کی موجودگی کی وجہ سے پنجشیر مزاحمتی قوتوں کے خلاف طالبان کی کارروائی سست ہوگئی ہے۔ طالبان نے اس سے قبل پنجشیر کے دو اضلاع پر قبضے کا دعویٰ کیا تھا۔

طالبان کے ایک ذرائع نے بتایا کہ پنجشیر میں لڑائی جاری ہے لیکن دارالحکومت بازارک اور صوبائی گورنر کے کمپاؤنڈ کی سڑک پر رکھی گئی بارودی سرنگوں سے پیش قدمی سست پڑ گئی ہے۔

طالبان رہنما جو اگلی حکومت میں تمام افغان دھڑوں کو شامل کرنے کی بات کرتے ہیں، نے تاحال عوامی سطح پر پنجشیر پر کنٹرول حاصل کرنے کا اعلان نہیں کیا۔

پنجشیر قومی مزاحمتی محاذ کا گڑھ ہے، جس کی قیادت سابق افغان گوریلا کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود اور سابق نائب صدر امر اللہ صالح کر رہے ہیں، جنہوں نے خود کو نگراں صدر قرار دیا تھا۔

امر اللہ صالح نے پہلے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ صورتحال مشکل ہے، ہم یلغار کی زد میں ہیں، مزاحمت جاری ہے اور جاری رہے گی۔

جبکہ دوسری جانب ایک اعلیٰ امریکی جنرل نے خبردار کیا ہے کہ اگر طالبان اقتدار کو مستحکم کرنے میں ناکام رہے تو ’خانہ جنگی‘ ہو سکتی ہے۔

خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق امریکہ کے چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل مارک ملی نے افغانستان کی صورتحال کے بارے میں کہا کہ ’میرے فوجی تخمینے کے مطابق جو حالات ہیں وہ خانہ جنگی کی طرف جا سکتے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ طالبان اپنی طاقت کو مستحکم کر کے گورننس قائم کر سکیں گے۔‘

افغانستان میں پنجشیر کی وادی میں طالبان اور مزاحمتی اتحاد کے مابین لڑائی میں تیزی آ گئی ہے اور وادی پنجشیر پر کنٹرول کے لیے طالبان اور مخالف اتحاد کی فورسز میں لڑائی میں شدت کے بعد فریقین کے متضاد دعوے سامنے آ رہے ہیں۔ روئٹرز کے مطابق طالبان کے جنگجوؤں نے وادی پنجشیر پر قبضے کا دعویٰ کیا تھا تاہم مخالف اتحاد نے اس کی تردید کی۔

مزاحمتی تحریک کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ دشتِ ریوت کے علاقے میں طالبان فوجیوں کا محاصرہ کر لیا گیا ہے۔

اسپوتنک نے ہفتے کے روز افغان مزاحمتی فورسز کے حوالے سے بتایا کہ افغانستان کے شمال مشرقی صوبے پنجشیر کے مختلف اضلاع میں صبح سے تقریباً 600 طالبان کو مار دیا گیا ہے۔

مزاحمتی افواج کے ترجمان فہیم دشتی نے ٹویٹ کیا کہ ایک ہزار سے زائد طالبان پکڑے گئے ہیں یا خود ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ ترجمان نے مزید کہا کہ طالبان فورسز صوبہ کاپیسا اور پنجشیر کی سرحد پر دربند کی بلندیوں تک پہنچ گئے تھے لیکن انہیں پیچھے دھکیل دیا گیا۔

دریں اثنا علاقے میں بارودی سرنگوں کی موجودگی کی وجہ سے پنجشیر مزاحمتی قوتوں کے خلاف طالبان کی کارروائی سست ہوگئی ہے۔ طالبان نے اس سے قبل پنجشیر کے دو اضلاع پر قبضے کا دعویٰ کیا تھا۔

طالبان کے ایک ذرائع نے بتایا کہ پنجشیر میں لڑائی جاری ہے لیکن دارالحکومت بازارک اور صوبائی گورنر کے کمپاؤنڈ کی سڑک پر رکھی گئی بارودی سرنگوں سے پیش قدمی سست پڑ گئی ہے۔

طالبان رہنما جو اگلی حکومت میں تمام افغان دھڑوں کو شامل کرنے کی بات کرتے ہیں، نے تاحال عوامی سطح پر پنجشیر پر کنٹرول حاصل کرنے کا اعلان نہیں کیا۔

پنجشیر قومی مزاحمتی محاذ کا گڑھ ہے، جس کی قیادت سابق افغان گوریلا کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود اور سابق نائب صدر امر اللہ صالح کر رہے ہیں، جنہوں نے خود کو نگراں صدر قرار دیا تھا۔

امر اللہ صالح نے پہلے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ صورتحال مشکل ہے، ہم یلغار کی زد میں ہیں، مزاحمت جاری ہے اور جاری رہے گی۔

جبکہ دوسری جانب ایک اعلیٰ امریکی جنرل نے خبردار کیا ہے کہ اگر طالبان اقتدار کو مستحکم کرنے میں ناکام رہے تو ’خانہ جنگی‘ ہو سکتی ہے۔

خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق امریکہ کے چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل مارک ملی نے افغانستان کی صورتحال کے بارے میں کہا کہ ’میرے فوجی تخمینے کے مطابق جو حالات ہیں وہ خانہ جنگی کی طرف جا سکتے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ طالبان اپنی طاقت کو مستحکم کر کے گورننس قائم کر سکیں گے۔‘

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.