فائنانشل ایکشن ٹاسک فورس(ایف اے ٹی ایف)نے 21فروری کی اپنی میٹنگ میں پاکستان کو جون 2020تک دیگر زیرِنگرانی رہنے والے دائرہ کار یعنی گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایف اے ٹی ایف نے ابتدا میں پاکستان کو جون 2018میں گرے لسٹ میں ڈال دیا تھا اور ساتھ میں اکتوبر 2019 تک پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کے راہنما خطوط کے تابع رہتے ہوئے معاملات میں پیشرفت کرنے کا ثبوت جمع دینے کا وقت دیا تھا ۔
ایف اے ٹی ایف کے پاکستان سے متعلق حالیہ فیصلے اور پاکستان پر مرتب ہونے والے اثرات کو سمجھنے کیلئے ہمیں سب سے پہلے اس تنظیم، اسکی رکنیت سے متعلق اور اسکے کام و طریقہ کار سے متعلق جانکاری حاصل کرنا ضروری ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی نظام کی سالمیت کو منی لانڈرنگ، دہشت گردوں کی فنڈنگ اور دیگر متعلقہ خطرات سے تحفظ فراہم کرنے کیلئے، قانونی ضوابط کا معیار مقرر کرنے اور پھر ان ضوابط کے موثر نفاذ کو فروغ دینے کیلئے ایف اے ٹی ایف کا قیام سنہ 1989میں روبہ عمل آیا تھا۔
یہ تنظیم انسدادِمنی لانڈرنگ (اے ایم ایل) اور دہشت گردوں کی فنڈنگ (سی ایف ٹی)کی روکتھام کے حوالے سے مختلف ممالک کی سنجیدگی اور انکی جانب سے کی جانے والی کوششوں کو دیکھتی ہے اور یوں یہ ایک ایسی مضبوط پالیسی ساز تنظیم ہے جو عالمی برادری کو مختلف ممالک کے متعلق تجاویز دیتی ہے۔فی الوقت37ممالک اور دو علاقائی تنظیموں، یورپی کمیشن اور گلف کارڈینیشن کونسل کے ساتھ ایف اے ٹی پی کے39 ارکان ہیں ۔
جہاں سبھی بڑی اقتصادی طاقتیں اس تنظیم کی ارکان ہیں، وہیں ایشیاء سے فقط جاپان، بھارت اور ملیشیا ہی کو اسکی رکنیت حاصل ہے اور پاکستان اس تنظیم سے باہر ہے۔اسکے علاوہ ایف اے ٹی ایف کے آٹھ ایسوسی ایٹ ممبر ہیں جو دراصل منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی فنڈنگ سے نمٹنے کی مجاذ علاقائی تنظیمیں ہیں۔بھارت اور پاکستان ان میں سے ایک تنظیم کی مشترکہ ممبران ہے جسے ایشیاء پیسیفک گروپ(اے پی جی) کہا جاتا ہے۔
علاوہ ازیں ایف اے ٹی ایف کی دس ذیلی مبصر تنظیمیں ہیں جن میں سے اکثر عالمی بینک کے سمیت علاقائی بینک یا دیگر اقتصادی ادارے شامل ہیں۔ایف اے ٹی ایف کیلئے سبھی رکن ممالک میں سے باری باری ایک سال کی مدت(جولائی تاجون)کیلئے صدر منتخب کیا جاتا ہے اور ابھی اس تنظیم کی صدارت چین کے پاس ہے۔
تنظیم کے زیرِ نگرانی ممالک کی جانب سے ہدایات کی تعمیل کا جائزہ لینے اور پھر ان ممالک کے بارے میں فیصلہ لینے کیلئے سال میں تین بار ( فروری،جون اور اکتوبر) پوری تنظیم کااجلاس طلب کیا جاتا ہے۔ جبکہ اے ایم ایل یا سی ٹی ایف کے حوالے سے کسی بھی زیرِ نگرانی ملک کے متعلق فیصلہ لینے کیلئے 40لازمی اور9اضافی معیارات مقرر ہیں۔
جہاں لازمی معیارات کی پاسداری ضروری ہے وہیں اضافی معیارات، جو زیادہ تر منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنڈنگ کے جرائم پر نظر رکھنے والے نظام (مالی لین دین میں شفافیت، مناسب ریکارڈ رکھنا اور مشکوک لین دین کے بارے میں قومی سطح پر اقتصادی جرائم کی تفتیش کرنے والے حکام کو مطلع رکھنا وغیرہ)کو بنائے رکھنے سے متعلق ہیں۔ایف اے ٹی ایف کو فیصلہ لینے میں مدد دیتے ہیں۔
جیسا کہ اوپر تذکرہ ہوا کہ ایف اے ٹی ایف، اسکی راہنما ہدایات پر کسی ملک کے عمل پیرا ہونے یا نہ ہونے کی بنیاد پر یہ فیصلہ لیتی ہے کہ اسکی زیرِ نگرانی رہنے والے کسی بھی ملک کو 'ادَر مونیٹرڈ جورش ڈِکشن' یا گرے لسٹ میں رکھنا ہے یا پھر 'کال فار ایکشن' یا بلیک لسٹ میں۔
فی الوقت پاکستان سمیت 14ممالک ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں اور ایران و شمالی کوریا کے 2ممالک بلیک لسٹ میں شامل ہیں۔کسی بھی ملک کو گرے لسٹ میں شامل کئے جانے یا اس فہرست سے باہر رکھنے کیلئے کم از کم 12ووٹ درکار رہتے ہیں تاہم کسی ملک کو گرے لسٹ سے نکالنے کیلئے ایف اے ٹی ایف کا جائے موقع کا معائنہ حمایتی رپورٹ بھی ضروری ہے۔البتہ گرے لسٹ میں موجود کسی بھی ملک کو بلیک لسٹ کرنے کیلئے کم ازکم 37ممبر ممالک کا ووٹ ضروری ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان دونوں بار بلیک لسٹ ہونے سے بچ گیا۔
اکتوبر2019اورفروری2020میں چین، ملیشیا اور ترکی نے پاکستان کو بلیک لسٹ کئے جانے کے خلاف ووٹ دیکر اسے بچالیا۔اکتوبر 2019میں پاکستان کوایف اے ٹی ایف کے 40معیارات کے 27میں سے 22نکات پر پیچھے پایا گیا تھا جبکہ اب ایف اے ٹی ایف کے مشاہدے میں پایا گیا ہے کہ پاکستان نے اسے کارروائی کیلئے دئے جاچکے27میں سے14نکات پر کام کیا ہے جبکہ دیگر نکات کے حوالے سے کہیں کم تو کہیں زیادہ کام کیا گیا ہے۔
ایف اے ٹی ایف نے تاہم بڑی سختی کے ساتھ پاکستان سے جون2020 تک مکمل طور پر اس کے معیار پر کھرا اُترنے کیلئے کہا ہے۔پاکستان سے کہا گیا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی آئندہ میٹنگ ہونے تک کوئی بھی لاپرواہی،باالخصوص دہشت گردوں کی فنڈنگ کے حوالے سے مقدمات چلانے اور قصورواروں کو سزا دلائے جانے میں حوالے سے اگر پاکستان تنظیم کی نظر میں آئی تو اسکے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ جس میں رکن ممالک پر یہ زور دینا بھی شامل ہوگا کہ وہ پاکستان کے ساتھ کسی بھی طرح کے جاری لین دین یا کاروبار پر سرِ نو خصوصی طور پر غور کریں۔
اسکا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے سر پر اب بھی تلوار لٹک رہی ہے اور اگر پاکستان ایف اے ٹی ایف کی اگلی میٹنگ تک پوری طرح سے ہدایت کے مطابق کارروائی کرنے میں ناکام ہوا تو اسکا کاروبار اور تجارتی لین دین رُک جائے گا جس سے ملک دیوالیہ پن اور افراتفری کا شکار ہوجائے گا۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان اپنے تین دوستوں کی مدد سے اس مشکل سے باہر آنے کیلئے پھڑ پھڑارہا ہے۔
پاکستان کی مشکل اسکی فوج اور دہشت گرد تنظیموں کا گٹھ ہے جن کو قائم کرکے اور پھر انکی اعانت کرکے بھارت کے اس پار بھیجی جاتی ہیں۔پاکستان نے اظہر مسعود، جیشِ محمد کے بانی چیف کے حوالے سے ایف اے ٹی ایف کو یہ بچگانہ بہانہ دیا کہ وہ پاکستان میں موجود نہیں ہیں حالانکہ بھارت نے پاکستان کے اس جھوٹ کا پردہ فاش کردیا ۔جہاں امریکہ سمیت سبھی بڑے ارکان بھارت کے ساتھ کھڑے رہیں ہیں وہیں چین نے ہچکچاہٹ کے ساتھ پاکستان کی حمایت یہ کہتے ہوئے کی کہ اسے دوسرا موقعہ ملنا چاہیئے۔
یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ ایف اے ٹی ایف کےجون میں ہونے والے اگلے اجلاس تک پاکستان اپنے یہاں پل رہے دہشت گرد گروہوں پر لگام لگا کر کس طرح اس تنظیم کو کوئی پیشرفت دکھا پائے گا یا نہیں لیکن تب تک اس ملک کے دیوالیہ ہونے کے خطرات اس پر منڈلاتے ہی رہیں گے۔