شمال مغربی شام کے ادلب صوبے میں باغیوں کے زیر کنٹرول متعدد علاقوں پر بھاری گولہ باری اور فضائی حملوں کے سبب شامی باشندے اپنے گھروں کو خالی کرنے نظر آئے۔
برطانوی تنظمیم 'شامی آبزرویٹری برائے ہیومن رائٹس'نے ایک ہی روز یعنی منگل کو 120 سے زائد فضائی حملوں کی اطلاع دی ہے۔
مقامی باشندے رِدا حج بَکری نے ایسوسی ایٹ پریس کو بتایا کہ 'ہمیں نہیں معلوم کہ ہم کہاں جارہے ہیں۔ ہمارے پاس بچے، بوڑھی عورتیں اور مرد ہیں۔ ہم انہیں لیکر کہاں جائیں۔ اللہ حملہ آوروں کی زندگی تباہ کرے اور ان سے بدلہ لے۔ میں اللہ سے ان کے خلاف شکایت کرتا ہوں'۔
رِدا حج بَکری کا مزید کہنا ہے کہ 'ایک مہینہ ہو گیا۔ یہاں نہ تو پانی ہے نہ کھانا ہے اور نہ ہی ہسپتال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔ اللہ انہیں تباہ کرے، جو بمباری کر رہے ہیں۔ اب ہم بے گھر ہو گئے ہیں۔ ہمیں کہاں جانا ہے ہمیں نہیں معلوم'۔
روسی فوج کے اشتراک سے شامی فوج شمال مغربی علاقے ادلب اور حلب کو باغیوں کے قبضے سے آزاد کرانے کے لیے مسلسل فضائی حملے کر رہی ہے۔
تقریبا 9 برس کے دوران شام میں فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں لاکھوں شامی باشندے بے گھر ہونے کے ساتھ ترکی کی سرحد کی طرف چلے گئے ہیں۔
بمباری سے اپنی جان بچا کر کسی محفوظ جگہ کی تلاش میں نکلنے کی تیاری کرتے شامی باشندے نہیں جانتے کہ انہیں کس جگہ جانا ہے اور آنے والے دنوں میں انہیں کتنی مشکلات سے دوچارہ ہونا پڑے گا۔
سخت سردی کی وجہ سے پریشانی کا سامنا کر رہے لاکھوں شامی باشندے کھلے آسمان اور درختوں کے نیچے پناہ لینے کو مجبور ہیں۔ اس کے سبب متعدد افراد موت کی نیند سو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ نے یکم دسمبر سے بے گھر ہونے والے شہریوں کی تعداد 9 لاکھ سے زائد بتائی ہے۔ ان میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں۔