یوروپی یونین نے کہا ہے کہ ایران کو جوہری معاہدے کی حفاظت کے لیے ہتھیاروں کے استعمال کے بجائے بات چیت کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔
یوروپی یونین کمیشن کی صدر ارسولا وان ڈیر لیین نے عراق میں امریکی بیس پر ایرانی میزائل حملے کے بعد یہ بات کہی۔
یہ حملہ امریکی ڈرون حملے کی جوابی کارروائی میں ہوا تھا، جس میں گذشتہ ہفتے بغداد ایئرپورٹ کے قریب ایران کے اعلی کمانڈر کی ہلاکت ہوئی تھی۔
بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں بات کرتے ہوئے، وان ڈیر لیین نے کہا کہ موجودہ بحران نہ صرف خطے بلکہ ہم سب کو بھی متاثر کرتا ہے۔ اور ہتھیاروں کا استعمال روک کر بات چیت کو جگہ دینی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان کی خارجہ پالیسی کے سربراہ، جوژیف بوریل عالمی معاہدے کے سبھی شراکت داروں سے بات چیت جاری رکھیں گے، تاکہ سنہ 2015 کے جوہری معاہدے سے ایران کے رول بیک ہونے کے باوجود معاہدے کو بچایا جا سکے۔
وان ڈیر لیین کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے، بوریل نے بڑھتے ہوئے تناؤ میں شامل سبھی فریق سے فوجی کارروائی روکنے کی اپیل کی۔
انہوں نے کہا، عراق میں امریکی اور یورپین یونین فورسز پر مشتمل اتحادی افواج کے زیر استعمال بیس پر تازہ راکٹ حملہ، تصادم میں اضافے کی ایک دوسری مثال ہے۔ اور مزید تشدد میں اضافہ کرنا کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔
بوریل نے ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف کو مذاکرات کے لیے برسلز آنے کی دعوت دی ہے۔
یوروپی یونین کے وزرائے خارجہ نے جاری بحران پر تبادلہ خیال کے لیے جمعہ کے روز ایک خصوصی اجلاس بلایا ہے۔
امریکی ڈرون حملے میں جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد ایران نے اعلان کیا ہے کہ وہ یورینیم افزودگی کے لیے مقرر کردہ حدود کا خیال نہیں رکھے گا۔
تاہم ظریف نے کہا ہے کہ جوہری معاہدے کے فریم ورک کے اندر اٹھایا جانے والا یہ ایک احتیاطی قدم تھا، اور اسے تبدیل کیا جاسکتا ہے۔