ETV Bharat / international

ذاکر نائک نے اپنے بیان پر معافی مانگی - ملیشیا

ڈاکٹر ذاکر نائک نے ایک تقریر کے دوران کہا تھا کہ 'ملیشیا میں ہندوؤں کو بھارت کی مسلم اقلیت کے مقابلے سو گنا زیادہ حقوق دیے جاتے ہیں'۔

ڈاکٹر ذاکر نائک نے اپنے بیان پر معافی مانگی
author img

By

Published : Aug 21, 2019, 11:57 PM IST

Updated : Sep 27, 2019, 8:12 PM IST

معروف اسلامی مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائک نے گذشتہ دنوں ہندو طبقے سے متعلق دیے گئے اپنے بیان کے لیے معافی مانگ لی ہے۔

ڈاکٹر ذاکر نائک نے نسل پرستی جیسے الزام سے خود کو علیحدہ کرتے ہوئے معافی نامے میں کہا ہے کہ وہ اپنے تبصرے پر معذرت خواہ ہیں۔

انہوں نے مزید کہ 'کسی بھی فرد یا برادری کی دل آزاری ان کا ہرگز مقصد نہیں تھا' ان کا بیان سیاق و سباق سے علیحدہ کر کے لیا گیا ہے۔

ڈاکٹر ذاکر نائک نے ایک تقریر کے دوران کہا تھا کہ 'ملیشیا میں ہندوؤں کو بھارت کی مسلم اقلیت کے مقابلے سو گنا زیادہ حقوق دیے جاتے ہیں'۔

ڈاکٹر ذاکر نائک کے اسی بیان کے بعد سے ہی ان پر کچھ ریاستوں میں عوامی جلسوں کے خطاب پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

خیال رہے کہ ملیشیا میں نسلی اور دینی امور کو بے حد حساس معاملہ تصور کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ذاکر نائک کے اس بیان پر اس قدر واویلا مچایا گیا ہے۔

ملیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائک اسلام کی تبلیغ کے لیے مکمل طور پر آزاد ہیں۔ لیکن انہیں یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ یہاں کی نسلی سیاست سے متعلق کسی طرح کا کوئی تبصرہ کریں۔

ڈاکٹر ذاکر نائک کو ملیشیا کی شہریت حاصل ہے، لیکن اس کے باوجود متعدد وزراء کی جانب سے انہیں ملک بدر کیے جانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اس سلسلے میں وزیر اعظم مہاتیر محمد کا کہنا ہے کہ اگر وہ کسی بھی معاملے میں قصور وار پائے جائیں گے تو اُن کی شہریت کے سلسلے میں فیصلہ کیا جائے گا۔

غور طلب ہے کہ ملیشیا ایک ایسا مسلم ملک ہے جہاں تین کروڑ 20 لاکھ کی آبادی میں 60 فیصد مسلم جبکہ 40 فیصد دیگر مذاہب کے افراد آباد ہیں۔

ڈاکٹر ذاکر نائک کو دنیا بھر میں ایک عظیم دانشور کے طور پر مانا جاتا ہے۔ فی الحال ان کے خلاف شدت پسندی کو فروغ دینے اور منی لانڈرنگ کے الزام کے تحت بھارت میں تحقیقات کی جا رہی ہے۔ اسی وجہ سے وہ کچھ عرصے سے ملیشیا میں مقیم ہیں۔

ذاکر نائک کے اسلامی چینل 'پیس ٹی وی' اور تحقیقاتی ادارے 'اسلامک ریسرچ فاونڈیشن' پر بھارتی حکومت کی جانب سے پابندی کر دی گئی ہے۔

معروف اسلامی مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائک نے گذشتہ دنوں ہندو طبقے سے متعلق دیے گئے اپنے بیان کے لیے معافی مانگ لی ہے۔

ڈاکٹر ذاکر نائک نے نسل پرستی جیسے الزام سے خود کو علیحدہ کرتے ہوئے معافی نامے میں کہا ہے کہ وہ اپنے تبصرے پر معذرت خواہ ہیں۔

انہوں نے مزید کہ 'کسی بھی فرد یا برادری کی دل آزاری ان کا ہرگز مقصد نہیں تھا' ان کا بیان سیاق و سباق سے علیحدہ کر کے لیا گیا ہے۔

ڈاکٹر ذاکر نائک نے ایک تقریر کے دوران کہا تھا کہ 'ملیشیا میں ہندوؤں کو بھارت کی مسلم اقلیت کے مقابلے سو گنا زیادہ حقوق دیے جاتے ہیں'۔

ڈاکٹر ذاکر نائک کے اسی بیان کے بعد سے ہی ان پر کچھ ریاستوں میں عوامی جلسوں کے خطاب پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

خیال رہے کہ ملیشیا میں نسلی اور دینی امور کو بے حد حساس معاملہ تصور کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ذاکر نائک کے اس بیان پر اس قدر واویلا مچایا گیا ہے۔

ملیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائک اسلام کی تبلیغ کے لیے مکمل طور پر آزاد ہیں۔ لیکن انہیں یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ یہاں کی نسلی سیاست سے متعلق کسی طرح کا کوئی تبصرہ کریں۔

ڈاکٹر ذاکر نائک کو ملیشیا کی شہریت حاصل ہے، لیکن اس کے باوجود متعدد وزراء کی جانب سے انہیں ملک بدر کیے جانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اس سلسلے میں وزیر اعظم مہاتیر محمد کا کہنا ہے کہ اگر وہ کسی بھی معاملے میں قصور وار پائے جائیں گے تو اُن کی شہریت کے سلسلے میں فیصلہ کیا جائے گا۔

غور طلب ہے کہ ملیشیا ایک ایسا مسلم ملک ہے جہاں تین کروڑ 20 لاکھ کی آبادی میں 60 فیصد مسلم جبکہ 40 فیصد دیگر مذاہب کے افراد آباد ہیں۔

ڈاکٹر ذاکر نائک کو دنیا بھر میں ایک عظیم دانشور کے طور پر مانا جاتا ہے۔ فی الحال ان کے خلاف شدت پسندی کو فروغ دینے اور منی لانڈرنگ کے الزام کے تحت بھارت میں تحقیقات کی جا رہی ہے۔ اسی وجہ سے وہ کچھ عرصے سے ملیشیا میں مقیم ہیں۔

ذاکر نائک کے اسلامی چینل 'پیس ٹی وی' اور تحقیقاتی ادارے 'اسلامک ریسرچ فاونڈیشن' پر بھارتی حکومت کی جانب سے پابندی کر دی گئی ہے۔

Intro:Body:Conclusion:
Last Updated : Sep 27, 2019, 8:12 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.