شام کے ادلب میں جاری فضائی حملوں سے بچنے کے لیے شامی باشندے درختوں کے نیچے پناہ لینے پر مجبور ہیں۔
ادلب میں بے گھر ہونے والوں کا دور دوبارہ شروع ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ درجنوں بے گھر افراد ترکی کی سرحد کے قریب زیتون کے درختوں کی پناہ لے رہے ہیں۔
یہاں پناہ لینے والے لوگ پہلے ہی سے دو بار بے گھر ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اپنے علاقے معرۃ النعمان کو گذشتہ 4 ماہ قبل چھوڑ کر مغربی حلف کے خان العسل علاقے میں پناہ گزیں تھے، لیکن وہاں کے حالات کے سبب وہ در بدر پھرنے کو مجبور ہیں۔
کچھ ہی ماہ بعد یہ یہاں سے بھی چلے جائیں گے۔ فی الحال تقریبا ایک درجن خاندان یہاں مقیم ہیں، جہاں وہ آئندہ ایک ماہ تک ٹھنڈ کی مار برداشت کرنے پر مجبور ہوں گے۔
یہ لوگ اشیائے خوردنی اور طبی سہولیات کی سنگینی سے بھی دوچار ہیں۔
بے گھر ہونے والے شامی باشندہ عبد الخالق حسن کا کہنا ہے کہ وہ درخت کے نیچے زندگی گذار رہے ہیں۔ ایک ہی ٹینٹ میں چار خاندان رہتے ہیں۔ ان کے پاس ٹینٹ اور دوسری چیزیں خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔
بے گھر ہونے والے افراد اپنے ساتھ جو بھی سامان لا سکتے تھے لے آئے، لیکن پناہ گاہ نہ ہونے کے سبب ان کے سامان یوں ہی بکھرے پڑے ہیں۔
حالیہ ہفتوں میں شامی حکومت کے تشدد کے سبب ہزاروں افراد بے گھر ہوئے ہیں۔ ان میں سے بہت سارے لوگ ترکی سرحد کے قریب علاقوں میں پناہ گزیں ہیں۔ لیکن ترکی میں شامی مہاجرین کی بڑی تعداد کے سبب ترکی نے شام سے منسلک اپنی سرحد کو بند کر دیا ہے۔
اقوام متحدہ نے ترکی کی سرحد کے ساتھ انسانیت سوز تباہی کے بڑھتے ہوئے خطرات سے خبردار کیا ہے۔
یو این دفتر کے مطابق 12 سے 25 دسمبر کے درمیان 2 لاکھ 35 ہزار سے زائد افراد بے گھر ہوئے ہیں۔