ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے کہا ہے کہ 'اگر تحفظ کے سخت اقدامات نہیں کیے گئے تو جولائی میں پاکستان میں مریضوں کی تعداد تو لاکھ سے بھی زائد ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد یہ معاملے تھوڑا کم ہو سکتے ہیں یا پھر ان میں اضافہ ہو سکتا ہے، لیکن پوری طرح ختم نہیں ہوں گے'۔
پاکستان کے ڈاکٹرز خوف میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ابھی اتنی ہی تعداد میں مریضوں کو سمبھالنا مشکل ہے۔ اگر حالات اور خراب ہوئے تو انہیں کیسے سمبھالا جائے گا؟
حال میں کراچی میں کام کرنے والے ڈاکٹر فرقان ال حق کی ان کے گھر پر ہی موت گئی تھی۔ وہ کورونا سے متاثر تھے اور انہیں ہسپتال میں بیڈ نہیں ملا۔
ایک سروے کے مطابق سنہ 2017 میں اوسط ہر 1580 لوگوں پر ہسپتال کا ایک بیڈ مہیا تھا۔ مریضوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے اس تعداد میں اضافہ کر کے تین ہزار سے زیادہ کیا گیا ہے لیکن وہ بھی کم پڑ گئے۔ اس کے بعد فیلڈ میں ہسپتال بنائے گئے۔