اطلاعات کے مطابق سٹلائٹ سے لی گئی تازہ تصاویر میں مغربی چین میں واقع پیپلز لبریشن آرمی ایئر فورس کے دو ایئر بیس پر اسٹیلتھ لڑاکا طیارے جے 20 کو دیکھا گیا۔
لائن آف ایکچول کنٹرول سے تقریباً 130 کیلومیٹر دوری پر واقع ہوتن میں پی ایل اے اے ایف کا ایک ایئربیس ہے۔ پی ایل اے ویسٹرن تھیٹر کمانڈ (ڈبلیو ٹی سی) کے تحت ہوتن ایئربیس میں پہلے سے ہی جے-10 اور جے-11 تعینات تھے جبکہ کچھ دن قبل یہاں جے-8 اور جے-16 کی تعیناتی بھی عمل میں لائی گئی تھی۔
چین کی یہ تعیناتیاں اہم ہیں کیونکہ بھارت کے ساتھ کسی بھی تصادم کے نتیجہ میں زمینی فوج سے زیادہ فضائیہ کے رول کی اہمیت ہے۔
چین کے اس اقدام کے جواب میں بھارت نے بھی پوری تیاری کر رکھی ہے۔ ایل اے سی کے قریب لیہہ ہوائی اڈہ پر سوکھوئی30 اور مگ29 کے فائٹرس، سی-17 ایئرلفٹر، پی8 بحری جہاز کے طیارے، چنوک اور اپاچی ہیلی کاپٹر پر مشتمل زبردست فضائی بیڑے تعینات رکھے ہیں۔
اس وقت خیال کیا جارہا ہے کہ پی ایل اے اے ایف کے بیڑے میں تقریباً 30 اسٹیلتھ لڑاکا طیارے جے 20 موجود ہیں۔ جے-20 لڑاکا طیارہ، ایف-22 اور ایف-35 جوائنٹ اسٹرائیک فائٹر کے بعد تیسرا طاقتور ترین جنگی طیارہ ہے جسے بیڑے میں جگہ دی گئی ہے۔
ایل اے سی کے قریب مختلف سطحوں پر جدید اسلحہ سے لیس ایک لاکھ سے زیادہ فوجی تعینات ہیں جبکہ ایل اے سی پر گذشتہ چار ماہ سے دونوں ممالک کی فوج آمنے سامنے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق چین جے-20 کی ففتھ جنریشن کے حامل اسٹیلتھ لڑاکا طیارہ بنانے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔ چین اپنے جدید ترین اسٹیلتھ لڑاکا طیارے جے۔20 پر مبنی 2 نشستوں والے طیارے کی تیاری پر کام کر رہا ہے۔ جے۔20 تیار کرنے والے چینگدو ایئرکرافٹ ڈیزائن انسٹیٹوٹ (سی اے ڈی آئی) کے ماہرین دنیا کے پہلے ایسے اسٹیلتھ طیارے کی تیاری پر کام کر رہے ہیں، جس میں 2 پائلٹ سفر کرسکیں گے، جبکہ یہ پہلے سے زیادہ جدید بھی ہوگا اور آئندہ 20 سال تک چینی فوج میں ریڑھ کی ہڈی کے مانند کام کرے گا۔
چین کی یہ پیشرفت بحرہند میں واقع سان ڈیاگو ایئربیس پر امریکہ کی جانب سے 3 بی-2 اسٹیلتھ بمبار طیاروں کی تعیناتی کے بعد ہوئی ہے۔ امریکہ اور چین کے مابین کشیدگی جارحانہ رخ اختیار کرگئی ہے۔ جاپان کے بحرالکاہل میں امریکی ایف-35 اور ایف 22، جبکہ جنوبی کوریا میں ایف-35 کی تعیناتی کے بعد کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔