چین کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کو بغاوت سے تعبیر کیا جارہا ہے تو وہیں جمہوریت حامی رہنماؤں نے چین کے الزام کی تردید کی ہے۔
برطانیہ نے یکم جولائی سن 1997 کو ہانگ کانگ کا انتظام چین کے سپرد کیا تھا۔ ’ایک ملک دو نظام‘ کے فارمولے کے تحت برطانیہ نے یہ علاقہ چینی انتظام میں دیا تھا۔ اس فارمولے کے تحت چین سے ضمانت لی گئی تھی کہ ہانگ کانگ کی خودمختاری اور آزاد عدالتی نظام چینی اثر سے الگ رکھا جائے گا۔ بیجنگ حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ ہانگ کانگ میں رائج سرمایہ داری نظام کو ’کم از کم 50 برس تک‘ تبدیل نہیں کیا جائے گا۔
ہانگ کانگ کی خود مختاری کو لیکر دنیا بھر میں بھی تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے جبکہ ملک میں آئے دن جمہوریت نواز احتجاجی مظاہرے ہوتے رہتے ہیں۔
اس سلسلہ میں سینئر صحافی سمیتا شرما نے ہانگ کانگ کے قانون ساز و سوک پارٹی کے رہنما ایوانگ ایلون سے بات کی اور زمینی حقیقت سے واقفیت حاصل کی۔
ایوانگ ایلون نے بتایا کہ ہانگ کانگ ایک ملک دو نظام پر عمل پیرا ہے۔ حکومت کی جانب سے قومی سلامتی کے موضوع پر ایک بل کو پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا جس کے بعد ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور اس کے خلاف احتجاج کیا۔
2003 میں بھی حکومت کی جانب سے اس طرح کی کوشش کی گئی تھی لیکن ہزاروں عوام کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ ہانگ کانگ میں ابھی بھی پوری طرح خودمختاری نہیں ہے جبکہ یہاں کے عوام صرف آدھے قانون ساز کو بھی منتخب کرسکتے ہیں اور ہمیں اپنا رہنما چننے کی بھی آزادی نہیں ہے۔
ایوانگ ایلون نے کہا کہ ان سب کے بیچ کیا آپ ہانگ کانگ کے لوگوں کو محفوظ سمجھتے ہیں، لوگ قومی سلامتی قانون کے خلاف ہیں کیونکہ اس سے حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت پولیس کی جانب سے کی جارہی بربریت کی پشت پناہی کررہی ہے اور عوام سے مشورہ کئے بغیر متنازعہ قوانین کو نافذ کرنا چاہتی ہے۔
ایوانگ ایلون نے مزید کہا کہ حکومت نہ صرف حزب اختلاف جماعتوں کے خلاف ظالمانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں بلکہ طلبا کے ساتھ بھی ظلم و سمت کیا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ دو دن قبل ہانگ کانگ کی پارلیمنٹ اس وقت میدانِ جنگ کا منظر پیش کررہی تھی جب اجلاس میں چین کے قومی ترانے کی بے عزتی جرم قرار دینے کے بل پر بحث کی جاری تھی۔ اس دوران چین کے حامی اور مخالفین چیئر پرسن کی کرسی کے گرد جمع ہوگئے اور کرسی تک پہنچنے کی کوشش میں ایک دوسرے کو دھکے دیتے دکھائی دیئے تھے۔