شامی مہاجرین کی لڑکیاں مصر کے اسکندریہ شہر میں ڈانس کے اسٹیپس سیکھ رہی ہیں۔
رقص کے پلائس اور پیرویٹس دونوں اسٹیپس کو موسیقی کے لیے وقت پر کرنا ضروری ہوتا ہے۔ متعدد بار ان اسٹیپس اور موسیقی کے درمیان انتہائی تجربہ کار بیلے ڈانسرز بھی مطابقت نہیں رکھ پاتے ہیں۔
اسکول کی بانی اور کوریو گرافر انس الشیفی کا کہنا ہے کہ عموما 'بیلے ڈانس' انتہائی نفیس ڈانس ہے۔ یہ بچوں کے لیے سیکھنا آسان نہیں ہوتا ہے۔ خاص طور پر شامی بچوں کے لیے جنہوں نے ایک ایک المناک جنگ کا مشاہدہ کیا ہے۔
شیفی کا مزید کہنا ہے کہ جب انہوں نے مصر میں شامی مہاجرین کو نئے گھروں سے مربوط ہونے کے لیے جد و جہد کرتے ہوئے محسوس کیا تو انہوں نے ان بچوں کے لیے اس طرح کے کلاسسز شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔
شیفی بتاتی ہیں کہ شام سے آنے والے افراد ایک المناک جنگ کا مشاہدہ کر کے آتے ہیں۔ اسی لیے انہوں نے لڑکیوں کو 'بیلے ڈانس' کے ذریعہ اس ٹراما سے نجات حاصل کرنے میں مدد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
کلاسسز میں مصری لڑکیاں بھی ہیں۔ اس طرح ڈانس کی مدد سے مصری اور شامی لڑکیوں کو ایک ساتھ رہ کر بہت کچھ سیکھنے کا موقع مل رہا ہے۔
رقص سیکھنے والی شامی بچی غنا الفردوس نے بتایا کہ بیلے ڈانس انہیں بہت اچھا لگتا ہے۔ یہ شام میں ان کے ساتھ پیش آئے حادثے کا غم بھلانے میں مدد کرتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ اپنے کوریو گرافر کے بے حد شکر گزار ہیں۔
سات برس قبل کلاسسز کی شروعات کی گئی تھی۔ تب سے اب تک شفی کو اس کے مثبت نتائج برآمد ہوتے نظر آ رہے ہیں۔
غور طلب ہے کہ ملک شام میں گذشتہ کئی برسوں سے خانہ جنگی کا ماحول ہے۔ اس خانہ جنگی کے نتیجے میں لاکھوں افراد بے گھر ہوئے ہیں، جنہیں ملک کے دیگر علاقوں کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی پناہ لینا پڑا ہے۔