پاکستان کے پشاوہ آرمی پبلک اسکول پر ہوئے حملے کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آ گئی ہے۔ عدالتی تحقیقاتی رپورٹ 525 صفحات اور 4 حصوں پر مشتمل ہے، جس میں اسکول کی سیکیورٹی پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دھمکیوں کے بعد سیکیورٹی گارڈز کی کم تعداد اور درست مقامات پرعدم تعیناتی تھی۔
پاکستان میڈیا کے مطابق 'رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ دہشتگرد اسکول کے عقب سے بغیر کسی مزاحمت کے داخل ہوئے، دھماکوں اور شدید فائرنگ میں سیکیورٹی گارڈز جمود کا شکار تھے، سیکیورٹی گارڈز نے مزاحمت کی ہوتی شاید جانی نقصان اتنا نہ ہوتا'۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہےکہ افغانستان سے دہشتگرد ممکنہ طور پر مہاجرین کے روپ میں داخل ہوئے، گشت پر مامور سیکیورٹی اہلکار دہشتگردوں کی جانب سے جلائی گئی گاڑی کی جانب گئے، گاڑی کو آگ سیکیورٹی اہلکاروں کو دھوکا دینے کیلئے لگائی تھی، گشت پر مامور سیکیورٹی اہلکاروں کی دوسری گاڑی نے پہنچ کر دہشتگردوں کا مقابلہ کیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ اس واقعہ نے ہمارے سیکیورٹی نظام پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے، سیکیورٹی پرتعینات اہلکار نہ صرف آنے والے حملہ آوروں کو روکنے کیلئے ناکافی تھے بلکہ ان کی پوزیشن بھی درست نہیں تھی، سیکیورٹی کی تمام توجہ مین گیٹ پرتھی جب کہ اسکول کا پچھلے حصے پر کوئی سیکیورٹی تعینات نہیں تھی، پچھلے گیٹ سے دہشتگرد بغیر کسی مزاحمت کے اسکول میں داخل ہوئے، سیکیورٹی پر مامور گارڈز کی صلاحیت دہشتگردوں کو روکنے کیلئے ناکافی تھی۔
واضح رہے کہ سنہ 2014 میں 16 دسمبر کو پشاور اسکول حملے کے دوران 132 بچوں سمیت 141 افراد ہلاک ہوئے تھے، جس نے اپنی توجہ پوری دنیا کی طرف مبذول کرائی تھی۔