افغانستان کے طلوع نیوز کے رپورٹر زیار خان یاد نے طالبان کے ہاتھوں ان کی ہلاکت کی میڈیا رپورٹس کی تردید کی ہے۔ وہ جس نیوز چینل میں کام کر رہے ہیں اسی نے خان کی موت کی خبر دی تھی۔
میڈیا ادارے کا کہنا تھا کہ زیار خان یاد کابل میں بے روزگاری اور غربت پر رپورٹنگ کر رہے تھے کہ اس دوران وہ طالبان کا نشانہ بن گئے۔ اس کے کیمرہ مین کو بھی بری طرح مارا پیٹا گیا۔
اس کے بعد زیار خان یاد کے قتل کے حوالے سے طلوع نیوز نے بھی ٹویٹ کیا۔ لیکن یہ خبر اس وقت جھوٹی ثابت ہوگئی جب صحافی زیار خان یاد نے خود ٹویٹ کرکے اس کی تردید کی اور کہا کہ وہ زندہ ہیں۔
خان نے ٹوئٹر پر لکھا کہ یہ رپورٹ جھوٹی ہے لیکن یہ واضح کیا کہ انہیں کابل کے نیو سٹی میں طالبان نے بندوق کی نوک پر زدوکوب کیا۔ کیمرے، تکنیکی سامان اور میرا ذاتی موبائل فون بھی چھین لیا گیا۔ کچھ لوگوں نے میری موت کی خبر پھیلائی جو کہ جھوٹی ہے۔
متاثرہ صحافی نے کہا کہ مجھے ابھی تک یہ نہيں معلوم ہوسکا ہے کہ طالبان نے ایسا سلوک کیوں کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ معاملہ طالبان کے لیڈروں کے سامنے اٹھایا گیا ہے۔ تاہم، قصورواروں کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا ہے، جو کہ اظہار رائے کی آزادی کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ دریں اثناء متعدد صحافیوں نے طالبان کے اس عمل کی مذمت کی ہے۔
طلوع نیوز افغانستان کا پہلا آزاد نیوز چینل ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
تقریباً 1500 امریکی شہری اب بھی افغانستان میں موجود: امریکی وزیر خارجہ
اردوغان نے مسلمانوں سے ناانصافی کے خلاف کھڑے ہونے کی اپیل کی
افغانستان سے محفوظ انخلا ہماری ترجیح: جی 7 رہنما
قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل 16 جولائی کو افغانستان میں پُلٹزر انعام یافتہ بھارتی فوٹو جرنلسٹ دانش صدیقی کے قتل کی خبریں آئی تھیں۔ صدیقی نے حالیہ برسوں میں جنوبی ایشیا سے متعدد یادگار تصاویر کی وجہ سے کافی معروف ہوگئے تھے۔
طالبان 15 اگست کو افغان دارالحکومت میں داخل ہوکر فتح کا اعلان کیا۔ افغان صدر اشرف غنی طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک سے فرار ہو گئے اور مبینہ طور پر وہ متحدہ عرب امارات میں ہیں۔