ETV Bharat / international

عراق میں یہودی گھروں کے اندر اب کون رہتا ہے؟

ان کے گھروں کے اندرونی اور بیرونی حصے انتہائی بوسیدہ ہو چکے ہیں۔ لیکن ان بوسیدہ گھروں میں ان کے مکینوں کی یادیں اب بھی زندہ ہیں۔

author img

By

Published : Aug 6, 2019, 11:54 PM IST

متعلقہ تصویر

یہودیوں کے اسرائیل ہجرت کرنے سے قبل عراق میں ان کے یہ گھر انتہائی شاندار اور آشائش سے پر تھے، لیکن آج ان کی ویرانی دیکھ کر برسوں کی بھولی بسری کہانیاں یاد آتی ہیں۔

عراق میں یہودی گھروں کے اندر اب کون رہتا ہے؟

آج سے تقریبا 70 برس قبل عراق میں حِلہ شہر کے بابل علاقے میں عرب مسلمان، آتش پرست اور یہودی میل جول اور آپسی بھائی چارے کے ساتھ خوش و خرم آباد تھے۔

اسرائیل کے قیام سے قبل یہودیوں کی آبادی بہت کم لیکن پوری دنیا میں پھیلی ہوئی تھی۔ تقریبا 2 ہزار برس قبل رومی افواج نے یہودیوں کے شہر 'یروشلم' پر حملہ کرکے پورے شہر کو تباہ کر دیا تھا۔

اس دوران وہاں رہنے والے کچھ یہودیوں کو رومی افواج نے ہلاک کر دیا تھا اور کچھ کو یروشلم چھوڑ کر دوسری جگہوں پر پناہ لینا پڑا تھا۔

اس حملے کے دوران رومی افواج نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے ذریعہ تعمیر کیا گیا عبادت خانہ (ہیکل سلیمانی) بھی مسمار کر دیا تھا۔ جس کا محض ایک حصہ محفوظ تھا، جسے آج 'دیوار گریہ' کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ہیکل سلیمانی کے اس محفوظ مغربی دیوار کو دیوار گریہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ جب یہودیوں نے دیکھا کہ ان کے مقدس عبادت گاہ کا محض ایک ہی حصہ محفوظ ہے، اور اس کے علاوہ کوئی نشانی نہیں رہی۔

اسی غم میں یہودی اس دیوار سے اپنے پیشانی کو ٹکا کر گریہ و زاری کرتے ہیں، اور عبادت گاہ کے مسمار کیے جانے کا ماتم مناتے ہیں۔

غور طلب ہے کہ سنہ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد دنیا بھر سے یہودیوں کو لا کر اسرائیل میں آباد کیا گیا، اسی دوران عراق میں بھی ہزاروں کی تعداد میں رہنے والے یہودی اپنا سب کچھ چھوڑ کر اسرائیل ہجرت کر گئے۔

ان یہودیوں کے عراق سے ہجرت کے بعد عراقی حکومت نے ان کے گھروں اور دیگر جائیداد کو اپنی تحویل میں لے لیا۔

اس طرح ان کی جائیداد اور گھروں کو حکومت کی منظوری کے بغیر فروخت کیا جا سکتا ہے نہ ہی منتقل کیا جا سکتا ہے۔

بابل میں یہودیوں کے وجود کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ در اصل بابل کے بادشاہ بخت و نصر نے اپنی افواج کے ذریعہ یروشلم پر چڑھائی کر کے انہیں بندی بنا کر بابل لانے کا حکم دیا تھا۔ تبھی سے بابل میں یہودیوں کی آبادی قائم تھی۔

آخر کار یہودیوں کے اپنے قدیم وطن یروشلم کے چھوڑنے کے تقریبا 2 ہزار برسوں کے بعد عراق سے 1 لاکھ 25 ہزار سے زائد یہودیوں کو سنہ 1951 اور 1952 کے درمیان ایران اور سائپرس کے راستے اسرائیل لایا گیا۔

اسرائیل کے قیام اور دنیا بھر بشمول عراق سے یہودیوں کے اسرائیل جا کر آباد ہونے کے باوجود عراق کے تقریبا 6 ہزار یہودیوں نے اسرائیل جانے سے نہ صرف انکار کر دیا بلکہ انہوں نے عراق ہی میں رہنے کا فیصلہ کیا۔

اسی دوران 'عرب سوشلسٹ بعث پارٹی' کے اقتدار میں آنے کے بعد عراق میں بقیہ تمام یہودیوں کو انتقام کے طور پر قتل کر دیا گیا۔ ان کے گھروں میں انہیں ازیتیں دی گئیں یہاں تک کہ وہ ہلاک ہو گئے۔

عراق سے اسرائیل جانے والے یہودیوں نے اپنے پیچھے سسکیاں اور آہیں بھرتی درودیوار کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے ان سے منہ موڑ لیا۔

ان کے گھروں کے اندرونی اور بیرونی حصے انتہائی بوسیدہ ہو چکے ہیں۔ لیکن ان بوسیدہ گھروں میں ان کے مکینوں کی یادیں اب بھی زندہ ہیں۔

یہودیوں کے اسرائیل ہجرت کرنے سے قبل عراق میں ان کے یہ گھر انتہائی شاندار اور آشائش سے پر تھے، لیکن آج ان کی ویرانی دیکھ کر برسوں کی بھولی بسری کہانیاں یاد آتی ہیں۔

عراق میں یہودی گھروں کے اندر اب کون رہتا ہے؟

آج سے تقریبا 70 برس قبل عراق میں حِلہ شہر کے بابل علاقے میں عرب مسلمان، آتش پرست اور یہودی میل جول اور آپسی بھائی چارے کے ساتھ خوش و خرم آباد تھے۔

اسرائیل کے قیام سے قبل یہودیوں کی آبادی بہت کم لیکن پوری دنیا میں پھیلی ہوئی تھی۔ تقریبا 2 ہزار برس قبل رومی افواج نے یہودیوں کے شہر 'یروشلم' پر حملہ کرکے پورے شہر کو تباہ کر دیا تھا۔

اس دوران وہاں رہنے والے کچھ یہودیوں کو رومی افواج نے ہلاک کر دیا تھا اور کچھ کو یروشلم چھوڑ کر دوسری جگہوں پر پناہ لینا پڑا تھا۔

اس حملے کے دوران رومی افواج نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے ذریعہ تعمیر کیا گیا عبادت خانہ (ہیکل سلیمانی) بھی مسمار کر دیا تھا۔ جس کا محض ایک حصہ محفوظ تھا، جسے آج 'دیوار گریہ' کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ہیکل سلیمانی کے اس محفوظ مغربی دیوار کو دیوار گریہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ جب یہودیوں نے دیکھا کہ ان کے مقدس عبادت گاہ کا محض ایک ہی حصہ محفوظ ہے، اور اس کے علاوہ کوئی نشانی نہیں رہی۔

اسی غم میں یہودی اس دیوار سے اپنے پیشانی کو ٹکا کر گریہ و زاری کرتے ہیں، اور عبادت گاہ کے مسمار کیے جانے کا ماتم مناتے ہیں۔

غور طلب ہے کہ سنہ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد دنیا بھر سے یہودیوں کو لا کر اسرائیل میں آباد کیا گیا، اسی دوران عراق میں بھی ہزاروں کی تعداد میں رہنے والے یہودی اپنا سب کچھ چھوڑ کر اسرائیل ہجرت کر گئے۔

ان یہودیوں کے عراق سے ہجرت کے بعد عراقی حکومت نے ان کے گھروں اور دیگر جائیداد کو اپنی تحویل میں لے لیا۔

اس طرح ان کی جائیداد اور گھروں کو حکومت کی منظوری کے بغیر فروخت کیا جا سکتا ہے نہ ہی منتقل کیا جا سکتا ہے۔

بابل میں یہودیوں کے وجود کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ در اصل بابل کے بادشاہ بخت و نصر نے اپنی افواج کے ذریعہ یروشلم پر چڑھائی کر کے انہیں بندی بنا کر بابل لانے کا حکم دیا تھا۔ تبھی سے بابل میں یہودیوں کی آبادی قائم تھی۔

آخر کار یہودیوں کے اپنے قدیم وطن یروشلم کے چھوڑنے کے تقریبا 2 ہزار برسوں کے بعد عراق سے 1 لاکھ 25 ہزار سے زائد یہودیوں کو سنہ 1951 اور 1952 کے درمیان ایران اور سائپرس کے راستے اسرائیل لایا گیا۔

اسرائیل کے قیام اور دنیا بھر بشمول عراق سے یہودیوں کے اسرائیل جا کر آباد ہونے کے باوجود عراق کے تقریبا 6 ہزار یہودیوں نے اسرائیل جانے سے نہ صرف انکار کر دیا بلکہ انہوں نے عراق ہی میں رہنے کا فیصلہ کیا۔

اسی دوران 'عرب سوشلسٹ بعث پارٹی' کے اقتدار میں آنے کے بعد عراق میں بقیہ تمام یہودیوں کو انتقام کے طور پر قتل کر دیا گیا۔ ان کے گھروں میں انہیں ازیتیں دی گئیں یہاں تک کہ وہ ہلاک ہو گئے۔

عراق سے اسرائیل جانے والے یہودیوں نے اپنے پیچھے سسکیاں اور آہیں بھرتی درودیوار کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے ان سے منہ موڑ لیا۔

ان کے گھروں کے اندرونی اور بیرونی حصے انتہائی بوسیدہ ہو چکے ہیں۔ لیکن ان بوسیدہ گھروں میں ان کے مکینوں کی یادیں اب بھی زندہ ہیں۔

Intro:Body:Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.