مندر میں 30 برس قبل ایک اسکول قائم کیا گیا تھا، جسے اب دوسری عمارت میں منتقل کردیا گیا ہے۔
پاکستان کے ڈپٹی کمشنر طلحہ سلیم نے ایک روادار معاشرے کے قیام کی خواہش کا اظہار کیا جو ہندو برادری کو مندر کی چابیاں حوالے کرتے ہوئے تمام مذاہب اور عقائد کو قبول کرتا ہے۔
طلحہ سلیم نے کہا ہے کہ 'آج کا دن بلوچستان کی تاریخ کا ایک اہم دن ہے۔ یہ مذہبی ہم آہنگی کی ایک مثال ہے۔
مقامی جامعہ مسجد کے خطیب مولانا اللہ داد نے نہ صرف اس فیصلے کی حمایت کی بلکہ اس تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔
ان کا کہنا ہے کہ 'دنیا کو دیکھنا چاہئے کہ ہمارے علما نے اقلیتی برادری کو کس قدر دل کی گہرائیوں سے قبول کیا ہے'۔
انہوں نے کہا ہے کہ 'ہم اس تاخیر کے لئے اقلیتی برادری سے معافی مانگتے ہیں ۔ انہوں نے انہیں یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ مندر کی بحالی بھی جلد مکمل ہوجائے گی۔
اطلاعات کے مطابق عمارت کی بحالی اور تزئین و آرائش کے بعد ہندو برادری کے ممبران اسے عبادت گاہ کے طور پر استعمال کرسکیں گے۔
بلوچستان کے علاقہ زوب میں ہندو برادری نے اس فیصلے کو خوشی سے قبول کیا۔
زوب میں اقلیتی برادری کے لئے کمیٹی کے چیئرمین سلیم جان نے میڈیا کو بتایا کہ 70 سال بعد مندر کی زیارت کرنا بڑی خوشی کی بات ہے۔
مزید پڑھیں: شام: مسلم ڈاکٹر پر بننے والی فلم آسکر کے لئے نامزد
ذرائع کے مطابق بابو محلہ میں مندر تقریبا 200 سال پرانا ہے اور اسے ایک پہاڑ سے کھڑا کیا گیا تھا۔