امریکہ میں صدارتی انتخابات کے لئے آج ووٹنگ ہوگی۔ لوگوں کی نگاہیں امریکی انتخابات پر مرکوز ہیں کہ ٹرمپ دوبارہ اقتدار میں لوٹ سکیں گے یا نہیں۔ بہت سے سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ انتخاب ہار سکتے ہیں اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ 1992 کے بعد پہلا موقع ہوگا جب کوئی صدر دوبارہ منتخب نہیں ہوا ہے۔
1992 میں بل کلنٹن نے اس وقت کے صدر جارج ڈبلیو بش کو شکست دی تھی۔ دوسری جانب ٹرمپ صدارتی انتخاب ختم ہونے کے بعد وقت سے پہلے ہی فتح کا اعلان کرسکتے ہیں۔
تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان تمام خبروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ایسا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ تاہم انہوں نے یقینی طور پر اشارہ کیا ہے کہ وہ انتخابات ہوتے ہی قانونی جنگ کی تیاری کر رہے ہیں۔
امریکی صدر سے پوچھا گیا کہ کیا وہ انتخابی رات سے پہلے ہی فتح کا اعلان کرسکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ نہیں یہ غلط خبر ہے۔ ٹرمپ نے مزید کہا کہ 'یہ بہت خطرناک ہے کہ انتخابات کے بعد بیلٹ جمع کیے جاسکتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ خطرناک ہے جب لوگوں یا ریاستوں کو انتخابات ختم ہونے کے بعد طویل عرصے تک بیلٹ پیپر جمع کروانے کی اجازت دی جائے۔
ٹرمپ نے متعدد پولنگ علاقوں میں انتخابات کے بعد بیلٹ پیپر حاصل کرنے کی اجازت دینے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ "ہم اسی دن رات اپنے وکلاء کے ساتھ تیار ہوں گے جس طرح الیکشن ہوگا۔"
پوسٹل الیکشن میں بڑے پیمانے پر دھوکہ دہی کے امکان پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "مجھے لگتا ہے کہ اس سے بڑا خطرہ ہے۔" اس سے بڑے پیمانے پر دھوکہ دہی اور ان بیلٹوں کا غلط استعمال ہوسکتا ہے۔ یہ ایک خطرناک بات ہے کہ کمپیوٹر کے جدید دور میں بھی ہم خود انتخاب کی رات کا نتیجہ نہیں جان سکتے ہیں۔
اسی دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ انتخابات میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ ان کے جلسوں میں ایک بہت بڑا ہجوم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بہت عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ فلوریڈا میں بہت اچھی بھیڑ ہے۔ اوہائیو میں ہم بہت اچھا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اوہائیو میں ہم چار سال پہلے سے بہتر کارکردگی پیش کریں گے، جب ہم 8 فیصد سے زائد ووٹوں سے فیتحیاب ہوئے تھے۔ نارتھ کیلولینا کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم وہاں بھی اچھا ووٹ حاصل کر رہے ہیں۔
انتخابی سروے کے مطابق اہم ریاستوں میں جہاں پہلے ہی ووٹنگ ہوچکی ہے وہاں ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن آگے ہیں جبکہ ٹرمپ کو ان علاقوں میں نمایاں برتری حاصل ہونے کا امکان ہے جہاں ابھی پولنگ ہونا باقی ہے۔
امریکی انتخابات میں پہلی بار بھارتی نژاد رائے دہندگان ایک بڑی طاقت کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ 16 ریاستوں میں ان کی تعداد کل امریکی آبادی کے ایک فیصد سے زیادہ ہے لیکن خاص بات یہ ہے کہ 13 لاکھ بھارتی ان 8 ریاستوں میں رہتے ہیں جہاں کانٹوں کا مقابلہ ہوتا ہے۔ ایسی صورتحال میں کسی بھی پارٹی کے لئے ایک ایک ووٹ قیمتی ہوجاتا ہے۔
امریکہ میں 24 ملین ووٹرز ہیں۔ 28 اکتوبر تک 7.5 کروڑ سے زیادہ ووٹ کاسٹ ہوچکے ہیں۔ انتخابی ماہرین کے مطابق پچھلی بار کی طرح اس بار بھی خاموش رائے دہندگان اہم کردار ادا کریں گے۔ ووٹ ڈالنے کے لئے دو آپشنز ہیں ایک میل یا ابتدائی ووٹنگ اور دوسرا پولنگ بوتھ پر جاکر ووٹنگ کرنا ہے۔
امریکی انتخابات کے لئے نومبر کا پہلا منگل مقرر ہے۔ اس کے تحت امریکی عوام اس بار 3 نومبر کو اپنا ووٹ ڈالیں گے۔ امریکی وقت کے مطابق ووٹنگ کا عمل صبح 6 بجے سے شروع ہوگا اور رات نو بجے تک چلے گا۔ جو لوگ اپنے پولنگ بوتھ پر جاکر ووٹ ڈالنا چاہتے ہیں وہ یہاں پہنچ سکتے ہیں اور اپنا ووٹ کاسٹ کرسکتے ہیں۔ رات نو بجے کے بعد کوئی بھی اپنا ووٹ نہیں دے سکے گا اور اس وقت کے بعد کوئی دوسرا متبادل نہیں ہوگا۔
امریکی انتخابات میں ووٹنگ کے فوراً بعد ہی ایکزٹ پول آنے لگتے ہیں جس سے کسی حد تک نتائج کی تصویر صاف ہوجاتی ہے لیکن اس بار ماحول مختلف ہے کیونکہ اس بار تقریباً نو کروڑ ووٹ میل ان ووٹ سے ڈالے گئے ہیں اور ایسے میں ان ووٹوں کی گنتی میں کافی وقت لگتا ہے، حالانکہ ووٹنگ ختم ہونے کے کچھ وقت بعد سے ہی کچھ ریاستوں کے نتیجے آ سکتے ہیں، جو 8 دسمبر تک مکمل ہوگا۔
امریکہ کا انتخابی عمل بھارت سے مختلف ہے۔ یہاں صدر کا انتخاب بالواسطہ ہوتا ہے۔ امریکہ میں کل 50 ریاستیں ہیں، 50 ریاستوں سے کل 538 انتخاب کنندہ منتخب ہوئے ہیں۔ اسے انتخابی کالج کہا جاتا ہے۔ الیکٹورل کالج میں دو ہاؤس ہیں۔ ایک سینیٹ اور دوسرا ہاؤس آف ریپرزنٹیٹیو۔
ہاؤس آف ریپرزینٹیٹو صدارتی انتخابات میں شامل ہوتے ہیں لیکن یہ پہلا موقع ہے جب 33 فیصد سینیٹ بھی صدارتی انتخابات میں شامل ہوں گے۔ رائے دہندگان کی تعداد ہر ریاست میں مختلف ہوتی ہے۔ جس ریاست کی آبادی زیادہ ہے، وہاں انتخابی کارکن زیادہ ہیں۔ صدر بننے کے لئے کسی بھی امیدوار کو 270 ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔