امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ ایران جب تک جوہری معاہدے کی شرائط کی پابندی نہیں کرتا ہے، اس وقت تک اس کے خلاف عائد پابندیاں ختم نہیں کی جائیں گی۔
ایک انٹرویو میں جب بائیڈن سے پوچھا گیا کہ کیا امریکہ ایران کو مذاکرات کی میز پر واپس لانے پر آمادہ کرنے کی غرض سے اس کے خلاف 'پہلے پابندیاں ختم' کر دے گا تو انہوں نے واضح انداز میں جواب دیا 'نہیں'۔
جب ان سے مزید پوچھا گیا کہ 'اگر ایرانی پہلے یورینیم کی افزودگی روک دیتے ہیں تو کیا وہ پابندیاں ہٹا دیں گے' اس پر صدر بائیڈن نے سر ہلا کر 'ہاں' میں جواب دیا۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سنہ 2018 میں امریکہ کو سنہ 2015 کے جوہری معاہدے سے الگ کر لینے کے بعد سے تہران نے جوہری معاہدے کی پاسداری ختم کر دی تھی۔ دوسری طرف واشنگٹن نے ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
گذشتہ ماہ بائیڈن کے امریکی صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد امریکہ اور ایران دونوں نے سنہ 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے میں دلچسپی ظاہر کی تھی۔ تاہم، دونوں اپنی اپنی شرطوں پر زور دے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایرانی وزیر خارجہ کا بائیڈن سے جوہری معاہدے میں واپسی پر زور
دوسری جانب، ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے گذشتہ روز کہا تھا کہ 'اگر وہ چاہتے ہیں کہ ایران معاہدے پر واپس آئے تو امریکہ کو عملی طور پر تمام پابندیاں ختم کرنی ہوں گی'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'جب تمام پابندیوں کے درست طور پر خاتمے کی تصدیق ہوگی تو پھر ہم تمام وعدوں پر واپس آئیں گے، یہ فیصلہ حتمی اور ناقابل واپسی ہے اور اس پر ایران کے تمام عہدیداروں کا اتفاق ہے'۔
ایرانی سپریم لیڈر کا کہنا تھا کہ 'ایران نے معاہدے میں شامل تمام شرائط پوری کی ہیں لیکن امریکہ اور یورپی ممالک نے ایسا نہیں کیا'۔
خامنہ ای کا یہ بیان اتوار کے روز اسی دن آیا ہے جب یمن کے لیے امریکہ کے خصوصی سفیر نے یمن میں جاری جنگ کا سیاسی حل تلاش کرنے کی امریکی کوششوں کے تحت تہران کا دورہ کیا۔ بیشتر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یمن کی جنگ دراصل ایران اور سعودی عرب کے مابین بالواسطہ جنگ ہے۔
خیال رہے کہ ایران جولائی سنہ 2015 میں چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری سمجھوتے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یورینیم کو 20 فیصد تک افزودہ کرنا چاہتا ہے جبکہ اس وقت وہ 4۰5 فی صد تک یورینیم کو افزودہ کر رہا ہے۔
اس جوہری سمجھوتے کے تحت ایران یورینیم کو صرف 3۰67 فیصد تک افزودہ کرسکتا ہے۔ یہ جوہری ہتھیار تیار کرنے کے لیے درکار 90 فیصد افزودہ یورینیم سے کہیں کم سطح ہے۔ ایران نے دسمبر سنہ 2020 میں قانون سازی کے ذریعے یورینیم کو افزودہ کرنے کے لیے اضافی اور جدید سینٹری فیوجز مشینیں نصب کرنے کا اعلان کیا تھا۔
ویانا میں قائم جوہری توانائی کے عالمی ادارے (آئی اے ای اے) نے حال ہی میں اپنی نئی رپورٹ میں کہا ہے کہ 'ایران نے جوہری سمجھوتے کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور اس نے اپنے ایک زیر زمین پلانٹ میں جدید سینٹری فیوجز مشینوں پر زیادہ بڑے پیمانے پر یورینیم کی افزودگی شروع کر رکھی ہے۔'