امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک حکم نامہ جاری کرکے میانمار کی فوجی حکومت پر پابندیاں عائد کر دی ہے، جس نے اس ماہ کے شروع میں فوجی بغاوت کرکے ملک میں جمہوری طور پر منتخب حکومت کو برطرف کر دیا تھا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے میانمار کی فوجی قیادت پر پابندی فوجی بغاوت کے بعد جاری احتجاج میں ایک خاتون کی ہلاکت کے بعد لگائی ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق، امریکی صدر جو بائیڈن نے میانمار میں فوجی بغاوت کے فوری خاتمے اور آنگ سان سوچی سمیت دیگر رہنماؤں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ اگر میانمار کی فوجی قیادت اپنے اختیارات سے 'دست بردار‘ نہیں ہوئی اور جمہوری طور پر منتخب رہنماؤں کو رہا نہ کیا تو امریکہ ایک ارب ڈالر کے اثاثوں تک ان کی رسائی روک دے گا۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ فوجی بغاوت کے خلاف میانمار کے لوگ آواز اٹھا رہے ہیں جس کو دنیا نے سنا اور دیکھ رہی ہے جبکہ اس سلسلے میں امریکہ کو کسی مزید ایکشن کی ضرورت پڑی تو وہ بھی لیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: امریکہ کی پیرس معاہدے اور ڈبلیو ایچ او میں واپسی، گوٹریس نے خیرمقدم کیا
جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ ان کی انتظامیہ رواں ہفتے پابندیوں کے پہلے مرحلے میں اپنے اہداف کی شناخت کرے گی جبکہ میانمار کے کچھ فوجی حکام کو پہلے ہی روہنگیا مسلمانوں کے خلاف مظالم کے باعث بلیک لسٹ کیا جاچکا ہے۔
میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف شدید احتجاج کیا جارہا ہے جس میں اساتذہ اور طلبہ سمیت مختلف شعبہ زندگی کے لوگوں کی بڑی تعداد شریک ہے، جبکہ گذشتہ روز ہونے والے احتجاج میں فوج کی فائرنگ سے ایک خاتون ہلاک ہوئی۔
میانمار کی فوج جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کا یہ جواز پیش کرتی ہے کہ نومبر کے انتخابات میں جس میں آنگ سان سوچی کی جماعت این ایل ڈی نے نمایاں کامیابی حاصل کی تھی، بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی تھی۔
دوسری جانب میانمار میں فوجی حکومت کی جانب سے گرفتاری کے باوجود مظاہرے جاری ہیں۔