ETV Bharat / international

متحدہ عرب امارات اور بحرین کا اسرائیل کے ساتھ معاہدوں پر دستخط

author img

By

Published : Sep 16, 2020, 10:30 AM IST

سنہ 1948 میں اسرائیل کے وجود میں آنے کے بعد یہ دونوں خلیجی ریاستیں اسے تسلیم کرنے والے تیسرے اور چوتھے عرب ممالک ہیں۔

متحدہ عرب امارات اور بحرین کا اسرائیل کے ساتھ معاہدوں پر دستخط
متحدہ عرب امارات اور بحرین کا اسرائیل کے ساتھ معاہدوں پر دستخط

متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں منعقدہ ایک خصوصی تقریب میں امن معاہدوں پر دستخط کردیے ہیں۔ اس طرح ان دونوں ممالک کے اسرائیل کے ساتھ باضابطہ طور پر معمول کے تعلقات استوار ہوگئے ۔

وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ اسرائیل کے سنگ میل معاہدوں کو ’نئے مشرق وسطی کا آغاز‘ کہہ کر خوش آمدید کہا ہے۔

سنہ 1948 میں اسرائیل کے وجود میں آنے کے بعد یہ دونوں خلیجی ریاستیں اسے تسلیم کرنے والے تیسرے اور چوتھے عرب ممالک ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کو امید ہے کہ دوسرے ممالک بھی ان کی پیروی کریں گے لیکن فلسطینیوں نے زور دیا ہے کہ باقی ممالک ایسا نہ کریں۔

متحدہ عرب امارات اور بحرین کا اسرائیل کے ساتھ معاہدوں پر دستخط

واضح رہے کہ بیشتر عرب ممالک نے کئی دہائیوں سے اسرائیل کا بائیکاٹ کر رکھا ہے اور وہ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ وہ اس تنازع کے حل کے بعد ہی تعلقات استوار کریں گے۔

اسرائیلی وزیراعظم بنجامین نیتن یاہو نے بحرینی وزیر خارجہ عبداللطیف الزیانی اور امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زاید آل نہیان کے ساتھ الگ الگ امن معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ان کے علاوہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ’’معاہدہ ابراہیم‘‘ پر دستخط کیے ہیں۔

متحدہ عرب امارات اسرائیل سے معمول کے تعلقات استوار کرنے والا تیسرا اور بحرین چوتھا ملک بن گیا ہے۔قبل ازیں عرب ممالک میں سے مصر اور اردن کے اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات استوار ہیں۔ مصر نے اسرائیل کے ساتھ 1979ء میں کیمپ ڈیوڈ میں امن معاہدہ طے کیا تھا۔اس کے بعد 1994ء میں اردن نے اسرائیل سے امن معاہدے کے بعد سفارتی تعلقات استوار کیے تھے۔

اس تقریب میں خطاب کرتے ہوئے شیخ عبداللہ بن زاید آل نہیان نے بنیامین نیتن یاہو کاشکریہ ادا کیا کہ انھوں نے ’’امن کا انتخاب‘‘ کیا ہے اور وہ فلسطینی علاقوں کو صہیونی ریاست میں ضم کرنے کے منصوبے سے دست بردار ہوگئے ہیں۔

اس معاہدے کے تحت اسرائیل نے اپنے مقبوضہ مغربی کنارے میں واقع وادیِ اردن اور بعض دوسرے علاقوں کو ریاست میں ضم کرنے کے منصوبے سے دستبردار ہونے سے اتفاق کیا تھا۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ان علاقوں کو صہیونی ریاست میں ضم کرنے کا اعلان کررکھا تھا۔

بحرینی وزیر خارجہ عبداللطیف الزیانی نے بھی اپنے ملک کے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کی ستائش کی ہے اور اس کو امن کی جانب پہلا اہم قدم قرار دیا ہے۔انھوں نے کہا کہ ’’ یہ اب ہماری ذمے داری ہے کہ ہمیں اپنے عوام کو ایسا امن وسلامتی مہیا کرنے کے لیے فوری طور پر اور فعال انداز میں کام کریں جس کے وہ حق دار ہیں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ ’’فلسطینی ، اسرائیلی تنازع کا ایک جامع منصفانہ حل ہی اس قسم کے امن کی بنیاد ہوسکتا ہے۔‘‘

امریکا میں متعیّن امارات کے سفیر یوسف العتیبہ کا کہنا تھا کہ ’’یہ تقریب سفارت کاری کی ایک بڑی فتح کی آئینہ دار ہے۔آج ہم نے جن معاہدوں پر دستخط کیے ہیں، ان کے نتیجے میں امکانات ، استحکام اور خوش حالی کا نیا دور شروع ہونے والا ہے۔ ان سے ہمارے تینوں ممالک اور پورے خطے کے لیے خیروفلاح برآمد ہوگی۔‘‘

انھوں نے اماراتی سفارت خانہ کے سرکاری ٹویٹر اکاؤنٹ پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں کہا ہے کہ ’’ یو اے ای کے نوجوان اور اسرائیل کے نوجوان اب ایک دوسرے سے ملاقات کرسکیں گے، وہ ایک دوسرے سے بات کرسکیں گے، ایک دوسرے سے سیکھ سکیں گے۔امن کی صورت میں یہی کچھ حاصل ہوتا ہے۔اس سے لوگوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے اور ایک فرق کا پتا چلتا ہے۔‘‘

وہیں فلسطینی رہنما محمود عباس نے کہا ہے کہ مقبوضہ علاقوں سے صرف اسرائیلی انخلا ہی مشرق وسطی میں امن قائم کر سکتا ہے۔ امن معاہدہ کے بعد ایک نیوز ایجنسی کو محمود عباس نے کہا: ’خطے میں امن، سلامتی اور استحکام اسرائیلی قبضہ ختم ہونے تک حاصل نہیں ہو گا۔‘

دوسری جانب اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی سے اس وقت اسرائیل میں دو راکٹ فائر کیے گئے جب یہ معاہدے کی تقریب جاری تھی۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارہ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ معاہدہ امارات کے لیے کافی مدد گار ہوگا جس نے نہ صرف خود کو ایک عسکری طاقت بنایا بلکہ کاروبار اور سیاحت کا مقام بھی بنایا ہے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ نے یہ معاہدہ کروانے کے لیے متحدہ عرب امارات کو وہ جدید ہتھیار فروخت کرنے کا وعدہ کیا ہے جو ماضی میں وہ دیکھ بھی نہیں سکتے تھے۔ ان میں ایف 35 سٹیلتھ لڑاکا طیارہ اور ای اے 18 جی برقی جنگی طیارہ شامل ہیں۔

متحدہ عرب امارات پہلے ہی جدید اسلحے سے لیس اپنی فوج کو یمن اور لیبیا میں استعمال کر رہا ہے۔ مگر اس کا سب سے بڑا ممکنہ دشمن ایران ہے جو کہ خلیجِ فارس کے دوسری طرف ہے۔

اسرائیل اور امریکہ دونوں کو ہی ایران پر شکوک ہیں۔ اور ایسی ہی رائے بحرین کی ہے۔ 1969 تک تو ایران بحرین پر علاقائی دعویدار رہا ہے۔

وہیں اسرائیلی سیاحت کا بہت شوق رکھتے ہیں اور انھیں یقیناً خلیجی ممالک کے صحرا، ساحل اور شاپنگ سنٹرز کافی پرکشش لگیں گے۔ اس میں ہر کسی کا فائدہ ہے۔

متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں منعقدہ ایک خصوصی تقریب میں امن معاہدوں پر دستخط کردیے ہیں۔ اس طرح ان دونوں ممالک کے اسرائیل کے ساتھ باضابطہ طور پر معمول کے تعلقات استوار ہوگئے ۔

وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ اسرائیل کے سنگ میل معاہدوں کو ’نئے مشرق وسطی کا آغاز‘ کہہ کر خوش آمدید کہا ہے۔

سنہ 1948 میں اسرائیل کے وجود میں آنے کے بعد یہ دونوں خلیجی ریاستیں اسے تسلیم کرنے والے تیسرے اور چوتھے عرب ممالک ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کو امید ہے کہ دوسرے ممالک بھی ان کی پیروی کریں گے لیکن فلسطینیوں نے زور دیا ہے کہ باقی ممالک ایسا نہ کریں۔

متحدہ عرب امارات اور بحرین کا اسرائیل کے ساتھ معاہدوں پر دستخط

واضح رہے کہ بیشتر عرب ممالک نے کئی دہائیوں سے اسرائیل کا بائیکاٹ کر رکھا ہے اور وہ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ وہ اس تنازع کے حل کے بعد ہی تعلقات استوار کریں گے۔

اسرائیلی وزیراعظم بنجامین نیتن یاہو نے بحرینی وزیر خارجہ عبداللطیف الزیانی اور امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زاید آل نہیان کے ساتھ الگ الگ امن معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ان کے علاوہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ’’معاہدہ ابراہیم‘‘ پر دستخط کیے ہیں۔

متحدہ عرب امارات اسرائیل سے معمول کے تعلقات استوار کرنے والا تیسرا اور بحرین چوتھا ملک بن گیا ہے۔قبل ازیں عرب ممالک میں سے مصر اور اردن کے اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات استوار ہیں۔ مصر نے اسرائیل کے ساتھ 1979ء میں کیمپ ڈیوڈ میں امن معاہدہ طے کیا تھا۔اس کے بعد 1994ء میں اردن نے اسرائیل سے امن معاہدے کے بعد سفارتی تعلقات استوار کیے تھے۔

اس تقریب میں خطاب کرتے ہوئے شیخ عبداللہ بن زاید آل نہیان نے بنیامین نیتن یاہو کاشکریہ ادا کیا کہ انھوں نے ’’امن کا انتخاب‘‘ کیا ہے اور وہ فلسطینی علاقوں کو صہیونی ریاست میں ضم کرنے کے منصوبے سے دست بردار ہوگئے ہیں۔

اس معاہدے کے تحت اسرائیل نے اپنے مقبوضہ مغربی کنارے میں واقع وادیِ اردن اور بعض دوسرے علاقوں کو ریاست میں ضم کرنے کے منصوبے سے دستبردار ہونے سے اتفاق کیا تھا۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ان علاقوں کو صہیونی ریاست میں ضم کرنے کا اعلان کررکھا تھا۔

بحرینی وزیر خارجہ عبداللطیف الزیانی نے بھی اپنے ملک کے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کی ستائش کی ہے اور اس کو امن کی جانب پہلا اہم قدم قرار دیا ہے۔انھوں نے کہا کہ ’’ یہ اب ہماری ذمے داری ہے کہ ہمیں اپنے عوام کو ایسا امن وسلامتی مہیا کرنے کے لیے فوری طور پر اور فعال انداز میں کام کریں جس کے وہ حق دار ہیں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ ’’فلسطینی ، اسرائیلی تنازع کا ایک جامع منصفانہ حل ہی اس قسم کے امن کی بنیاد ہوسکتا ہے۔‘‘

امریکا میں متعیّن امارات کے سفیر یوسف العتیبہ کا کہنا تھا کہ ’’یہ تقریب سفارت کاری کی ایک بڑی فتح کی آئینہ دار ہے۔آج ہم نے جن معاہدوں پر دستخط کیے ہیں، ان کے نتیجے میں امکانات ، استحکام اور خوش حالی کا نیا دور شروع ہونے والا ہے۔ ان سے ہمارے تینوں ممالک اور پورے خطے کے لیے خیروفلاح برآمد ہوگی۔‘‘

انھوں نے اماراتی سفارت خانہ کے سرکاری ٹویٹر اکاؤنٹ پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں کہا ہے کہ ’’ یو اے ای کے نوجوان اور اسرائیل کے نوجوان اب ایک دوسرے سے ملاقات کرسکیں گے، وہ ایک دوسرے سے بات کرسکیں گے، ایک دوسرے سے سیکھ سکیں گے۔امن کی صورت میں یہی کچھ حاصل ہوتا ہے۔اس سے لوگوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے اور ایک فرق کا پتا چلتا ہے۔‘‘

وہیں فلسطینی رہنما محمود عباس نے کہا ہے کہ مقبوضہ علاقوں سے صرف اسرائیلی انخلا ہی مشرق وسطی میں امن قائم کر سکتا ہے۔ امن معاہدہ کے بعد ایک نیوز ایجنسی کو محمود عباس نے کہا: ’خطے میں امن، سلامتی اور استحکام اسرائیلی قبضہ ختم ہونے تک حاصل نہیں ہو گا۔‘

دوسری جانب اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی سے اس وقت اسرائیل میں دو راکٹ فائر کیے گئے جب یہ معاہدے کی تقریب جاری تھی۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارہ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ معاہدہ امارات کے لیے کافی مدد گار ہوگا جس نے نہ صرف خود کو ایک عسکری طاقت بنایا بلکہ کاروبار اور سیاحت کا مقام بھی بنایا ہے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ نے یہ معاہدہ کروانے کے لیے متحدہ عرب امارات کو وہ جدید ہتھیار فروخت کرنے کا وعدہ کیا ہے جو ماضی میں وہ دیکھ بھی نہیں سکتے تھے۔ ان میں ایف 35 سٹیلتھ لڑاکا طیارہ اور ای اے 18 جی برقی جنگی طیارہ شامل ہیں۔

متحدہ عرب امارات پہلے ہی جدید اسلحے سے لیس اپنی فوج کو یمن اور لیبیا میں استعمال کر رہا ہے۔ مگر اس کا سب سے بڑا ممکنہ دشمن ایران ہے جو کہ خلیجِ فارس کے دوسری طرف ہے۔

اسرائیل اور امریکہ دونوں کو ہی ایران پر شکوک ہیں۔ اور ایسی ہی رائے بحرین کی ہے۔ 1969 تک تو ایران بحرین پر علاقائی دعویدار رہا ہے۔

وہیں اسرائیلی سیاحت کا بہت شوق رکھتے ہیں اور انھیں یقیناً خلیجی ممالک کے صحرا، ساحل اور شاپنگ سنٹرز کافی پرکشش لگیں گے۔ اس میں ہر کسی کا فائدہ ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.