رجب طیب اردگان نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہئیے۔
انہوں نے بین الاقوامی برادری کی طرف سے مسئلہ پر توجہ نہ دینے پر تنقید کی اور کہا کہ یہ مسئلہ گذشتہ 72 برسوں سے حل طلب ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے رجب طیب اردگان نے کہا کہ' جنوبی ایشیاء کے استحکام اور خوشحالی کے لیے کشمیر کو الگ نہیں کیا جا سکتا، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود کشمیر میں 80 لاکھ افراد حصار میں ہیں'۔
انہوں نے اسلام کو شدت پسندی کے ساتھ جوڑنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسلام امن کی نمائندگی کرتا ہے اور اپنے غیر انسانی اقدامات کو اسلام کے طور پر پیش کرنے والے اسلام اور پوری انسانیت کی توہین کر رہے ہیں۔
ترکی کے صدر طیب ایردوان نے اپنے خطاب میں کہا کہ جوہری طاقت پر یا تو دنیا بھر کے ممالک کے لیے پابندی لگا دی جانی چاہئے یا پھر تمام ممالک کو یہ حق حاصل ہونا چاہئیے کہ وہ جوہری صلاحیت حاصل کر سکیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ چند ممالک کی طرف سے جوہری صلاحیت برقرار رکھنے سے عدم مساوات پیدا ہوا ہے جس نے دنیا بھر میں عدم توازن پیدا کر دیا ہے۔
مسئلہ فلسطین کا ذکر کرتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ دو ریاستی حل کی جانب بڑھنا وقت کا اہم تقاضا ہے۔ اور اب یہ اس حل پر عمل کرنے کا وقت ہے۔
اردگان نے کہا کہ' کشمیر کے لوگوں کے لیے پاکستانی اور بھارتی پڑوسیوں کے ساتھ محفوظ مستقبل اور مسئلے کے حل کے لیے انصاف کی بنیاد پر بات چیت کرنا بے حد ضروری ہے، لیکن یہ مذاکرات آپسی تنازعات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے منعقد کرنا ہونگے'۔اردگان کا یہ بیان ان کے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کے بعد سامنے آیا ہے۔'
انہوں نے سعودی صحافی جمال خاشقجی قتل معاملے کے بارے میں کہا کہ گذشتہ برس بے رحمی سے قتل ہونے والے خاشقجی خطے میں حصول انصاف اور مساوات کی علامت بن گیا ہے، کیوںکہ عدالت نے ان کے قتل معاملے سے متعلق ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔
انہوں نے برما کے جلاوطن روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان مسلمانوں کو نسل کشی کا خطرہ درپیش ہے۔
پاکستانی میڈیا کے مطابق عمران خان نے ان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات اور بھارت کی جانب سے جموں وکشمیر کو ملنے والی خصوصی آئینی حیثیت کو منسوخ کیے جانے کے بعد کی صورتحال پر بات چیت کی۔