کشمیر میں جاری حالیہ بحران پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے امریکہ نےکہا کہ کشمیر کے حوالے سے اس کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے، بلکہ اس کے حل کے لیے وہ بھارت اور پاکستان کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔
امریکہ نے اس بات کو دہرایا ہے کہ مسئلہ کشمیر بھارت اور پاکستان کے مابین دوطرفہ طور پر حل کیا جانا چاہیے۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان مورگن آرٹیگس کا کہنا ہے کہ 'امریکہ کے بھارت اور پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات ہیں، وہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان سے صرف مسئلہ کشمیر کی وجہ سے نہیں ملے، بلکہ یہاں دیگر معاملات بھی ہیں۔'
جب پوچھا گیا کہ کیا مسئلہ کشمیر کے حوالے سے امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی ہوئی ہے تو مورگن آرٹیگس نے جواب دیا کہ اس پر ان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے حوالے سے مذاکرات کی حمایت کرتا ہے۔
دراصل بھارت کی طرف سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیے جانے کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو گئی ہے۔
پاکستان نے کارروائی کرتے ہوئے بھارت سے سفارتی تعلقات محدود کرنے اور تجارتی تعلقات معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان نے دونوں ممالک کے درمیان چلنی والی ریل گاڑی سمجھوتہ ایکپسریس کو بھی روک دیا ہے، لیکن کرتار راہداری پر کام جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
بھارت نے پاکستان کے اس قدم کو یکطرفہ بتاتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو کشمیر پر مداخلت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے، یہ بھارت کا داخلی مسئلہ ہے۔
رواں ماہ دو اگست کو بھارتی وزیرخارجہ جے شنکر نے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو سے 'ایسٹ ایشیا سمٹ فارن منسٹرز' اجلاس کے دوران بینکاک میں ملاقات کی تھی اور امریکی ہم منصب سے کہا تھا کہ کشمیر پر کوئی بھی بات چیت صرف پاکستان اور بھارت کے درمیان ہی کی جائے گی۔