جو بائیڈن امریکی سیاست میں تقریبا نصف صدی گزار چکے ہیں اور اس بار سابق نائب صدر کا امریکی صدر بننے کا کئی دہائیوں کا پرانا خواب مکمل ہوچکا ہے۔ لیکن اپنے اس طویل سیاسی سفر میں انہوں نے امریکی تاریخ کے غیر معمولی وقت کے دوران بہت کچھ کیا ہے، چاہے جب قوم عالمی وبا سے جوجھ رہی ہو یا ملک کی گرتی ہوئی اقتصادی حالت یا شہر میں پھیلی بدامنی، انہوں نے ملک کی ترقی میں کئی ناقابل فراموش کام کیا ہے۔
- ریاست پینسلوینیا کے شہر سکرینٹن میں جوژیف روبینیٹ بائیڈن کی پیدائش 20 نومبر 1942 کو ہوئی۔
- سنہ 1965 میں انہوں نے یونیورسٹی آف ڈیلاوئیر سے بیچلرز کی ڈگری حاصل کی۔
- سنہ 1968 میں سائرہ کوز یونیورسٹی سے لاء کی ڈگری حاصل کی۔
سنہ 2020 میں صدر بننے کی دوڑ میں بائیڈن نے تیسری مرتبہ امریکی صدراتی انتخاب میں حصہ لیا۔ انہوں نے پہلی بار سنہ 1988 میں عہدہ صدارت کے لیے کوشش کی تھی، لیکن ان پر تقریر کی چوری کرنے کا الزام لگنے کے بعد انہوں نے اس دوڑ کو چھوڑنا مناسب سمجھا۔ بعد میں انہوں نے سنہ 2008 میں صدراتی انتخاب میں حصہ لینے کے لیے دوسری کوشش کی لیکن آئیووا کاکس میں ایک فیصد سے بھی کم ووٹ حاصل کرنے کی وجہ سے وہ اس مرتبہ بھی ناکامیاب رہے۔
- سنہ 1990 میں کوسوو تنازعہ پر جو بائیڈن نے کھل کر تنقید کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا اور سربیا کے خلاف کارروائی کرنے کی بات کہی۔
- سنہ 1987 سے 95 میں عدلیہ سے متعلق کمیٹی کی سربراہی کی۔
- سنہ 2001 سے 2003 اور سنہ 2007 سے 2009 تک انہوں نے دو بار امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کی سربراہی کی۔
- سنہ 2003 سے 2011 عرق جنگ:انہوں نے امن برقرار رکھنے کے لیے عراق کو الگ کرنے کی تجویز پیش کی۔
بائیڈن نے 78 سال کی عمر میں ایک طویل عرصے سے سینیٹر اور نائب صدر کی حیثیت سے نئے تجربے حاصل کیے اور ایک تیز اور خطرناک دنیا میں خود کو مستحکم رکھنے کی کوشش کی۔ان سب کے باوجود اپنی منزل تک پہنچنے کا بائیڈن کا راستہ آسان نہیں تھا۔
اب وہ وائٹ ہاؤس کے اس جانے پہچانے والے علاقے میں خود کو دوبارہ دیکھنے کے لیے تیار ہیں، جہاں انہوں نے سنہ 2008 انتخابات کے بعد براک اوبامہ کے صدارتی دور میں نائب صدر کی حیثیت سے 8 سال تک اپنے خدمات انجام دئیے۔
- اوبامہ نے ان کو صدارتی میڈل آف ٖریڈم سے نوازا تھا جو امریکا کے اعلیٰ ترین اعزاز میں سے ایک ہے۔
اوبامہ اور بائیڈن اپنے آٹھ سال کے اس وقفے کے دوران ایک دوسرے سے بہت قریب ہوگئے تھے۔ امریکی یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر لینی اسٹین ہورن نے ان کی دوستی کے قصے سناتے ہوئے کہا کہ "جو بائیڈن صدر اوباما کے دائیں ہاتھ تھے۔ جب بھی اوبامہ کو کچھ اہم فیصلہ کرنے کی ضرورت ہوتی تھی تو وہ بائیڈن سے ہی مشورہ لیتے تھے اور وہ اوبامہ انتظامیہ میں بہت اہم فیصلہ لینے والوں میں سے ایک تھے'۔
سابق نائب صدر کو اپنے سیاسی کیریئر میں ذاتی نقصان اور سانحہ سے بھی گزرنا پڑا، سنہ 1972 میں 29 سال کی عمر میں سینیٹ میں اپنی پہلی نشست جیتنے کے فوری بعد انہوں نے ایک کار حادثے میں اپنی اہلیہ اور بیٹی کو کھودیا۔تاہم ان کے بیٹے بیو اور ہنٹر حادثے میں بچ گئے اور جو بائیڈن نے ہسپتال کے کمرے میں ہی اپنے بیٹوں کے ہمراہ پہلی بار سینیٹر کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔
فروری 1988 میں اپنی پہلی صدارتی مہم کے ختم کرنے کے کچھ مہینوں کے بعد بائیڈن کو دو جان لیوا دماغی بیماری کا سامنا کرنا پڑا۔ڈاکٹروں نے اس وقت انہیں بتایا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ وہائٹ ہاؤس کے اس مہم نے انہیں موت کی کگار پر دھکیل دیا تھا۔
مئی 2015 میں بائیڈن پر پہاڑ ٹوٹ پڑا جب ان کے سب سے بڑے بیٹے بیو بائیڈن کی دماغی کینسر کی وجہ سے موت ہوگئی۔ اس موت نے بائیڈن کے سیاسی کیریئر کو روک دیا اور بہت سے لوگوں کو اس تذبذب میں چھوڑ دیا کہ وہ کبھی واپس اپنے سیاسی کیرئیر کی طرف رخ کریں گے یا نہیں۔
لیکن پانچ سال بعد بائیڈن نے اپنے اس المناک حقیقت کو قبول کیا اور امریکیوں کو بتایا کہ اس حادثے نے انہیں روکنے نہیں بلکہ آگے بڑھنے اور زندگی کا مقصد تلاش کرنے میں مدد کی۔بائیڈن نے اپنے ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن کے خطاب کے دوران کہا کہ 'میں جانتا ہوں کہ کبھی کبھی زندگی کتنی بے معنی اور درد بھری ہوسکتی ہے۔ لیکن میں نے دو چیزیں سیکھی ہیں۔پہلی چیز کی آپ کے قریبی اور پیارے اس زمین کو چھوڑ سکتے ہیں لیکن وہ کبھی بھی آپ کے دل سے دور نہیں ہوں گے اور دوسری چیز تکلیف، نقصان اور غم میں ہی بہترین راستہ اور مقصد تلاش کرسکتے ہیں'۔
سینیٹ میں چھ مدت سے بھی زیادہ وقت گزارنے کے دوران بائیڈن نے سینیٹ کے عدلیہ اور 2 مرتبہ سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کی صدارت بھی کرچکے ہیں۔ سپریم کورٹ کے متنازعہ سماعتوں کی صدارت بھی کی ہے۔
جہان ان کے ذریعہ لیے گئے چند فیصلوں نے ان کے سنجیدہ کردار کو دیکھایا، وہیں ان کے ذریعہ لیے گئے کچھ فیصلوں کی وجہ سے پیدا ہوئے حالات کے ساتھ وہ اب بھی جی رہے ہیں۔جیسے 1994 کرائم بل کو اسپانسر کرنا اور جنسی ہراساں کا الزام عائد کرنے والی انیتا ہل سے پوچھ گچھ کرنے کے لیے ایک ایسی کمیٹی کی تشکیل کرنا جس میں صرف مرد شامل تھے۔
اپنے دماغ کی بات کرنے والے بائیڈن کی پہچان سیدھا اور صاف بولنے والے اور سیاست کے تئیں ان کے غیر متوقع انداز سے ہوئی ہے۔ حالانکہ وہ ہمیشہ اپنی اس خاصیت کی وجہ سے میڈیا کے نشانے پر تھے، لیکن کچھ ڈیموکریٹس نے انہیں مشورہ دیا کہ ان کا یہ آزادانہ انداز ہی ٹرمپ کے خلاف رواں سال کی صدارتی مہم کو جیتنے کے لیے مناسب تھا۔
بائیڈن کا 2020 کے صدرارتی انتخاب کے لیے نامزدگی اور اسے فتح کرنے کا راستہ بھی بالکل ان کے سیاسی کیرئیر کی طرح ہی تھی۔
وائٹ ہاؤس کے لئے ان کی تیسری دوڑ میں وہ کئی جگہ لڑکھڑائے اور ان پر کئی طرح کے الزام عائد کیے گئے ۔بائیڈن کے انتخابی مہم شروع ہونے سے پہلے وہ کئی تنازعات سے گھرے رہے، لیکن ان سب کے باوجود امریکی عوام نے انہیں اپنے نئے صدر کے طور پر منتخب کیا۔