27 اکتوبر کو اسرائیلی حکومت نے مقبوضہ مغربی کنارے کے اندر یہودی آباد کاروں کے لیے 3,130 مکانات کی تعمیر کے منصوبے کا اعلان کیا، جس کے ساتھ ہی اسرائیل نے امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ یورپی یونین کے 13 ممالک کی جانب سے اسرائیلی منصوبوں پر سخت ترین تنقید کو مسترد کردیا ہے۔
یہ فیصلہ اسرائیلی حکومت نفتالی بینیٹ اور بائیڈن انتظامیہ کے درمیان پہلی ڈرامائی تصادم کا سبب بھی بنا۔
26 اکتوبر کو ہونے والے اعلان کے بعد، امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا "ہم مقبوضہ مغربی کنارے پر یہودی بستیوں کی توسیع کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں، جو کہ کشیدگی کو کم کرنے اور امن کی کوششوں سے مکمل طور پر مطابقت نہیں رکھتی اور اس سے دو ریاستی حل کے امکانات کو نقصان پہنچتا ہے۔
پرائس نے مزید کہا کہ بائیڈن انتظامیہ اس معاملے پر امریکی انتظامیہ کے خیالات کو براہ راست اسرائیلی حکام کے ساتھ اپنی نجی بات چیت میں اٹھائے گی۔
اس کے علاوہ جرمنی، بیلجیم، ڈنمارک، فن لینڈ، فرانس، جرمنی، آئرلینڈ، اٹلی، ہالینڈ، ناروے، پولینڈ، اسپین اور سویڈن کی وزرات خارجہ نے ایک مشترکہ بیان میں فلسطینی سرزمین پر یہودی آباد کاروں کے لیے تقریباً 3000 مکانات تعمیر کرنے کے اسرائیلی حکومت کے فیصلے پر سخت تنقید کی تھی۔
مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ ہم دونوں فریقوں سے تعاون کو بہتر بنانے اور کشیدگی کو کم کرنے کے لیے حالیہ مہینوں میں اٹھائے گئے اقدامات پر زور دیتے ہیں،" ۔
بین الاقوامی قانون کے تحت، مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاری غیر قانونی ہے، لیکن برسوں کے دوران یکے بعد دیگرے اسرائیلی حکومتوں نے ان کی توسیع کی اجازت دی، جس سے مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کو تبدیل کیا گیا اور اب وہ ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق 1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ میں مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم پر اسرائیل کے قبضے کے بعد سے تعمیر کی گئی 145 بستیوں میں 600,000 سے زیادہ یہودی رہتے ہیں۔
فلسطینی سرزمین پر یہودی بستیوں کی موجودگی جغرافیائی طور پر متصل فلسطینی ریاست کے قیام کو روکتی ہے۔تاہم، واضح رہے کہ موجودہ منصوبے کی منظوری سابق وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کی جانب سے ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں 30,000 سے زائد آباد کاروں کے مکانات کی تعمیر کے دوران پیش کیے گئے تعمیراتی منصوبوں کے برعکس ہے۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہودی آبادکاری کی سرگرمیوں کے بارے میں بہت زیادہ رواداری کا مظاہرہ کیا اور اعلان کیا کہ یہودی بستیاں بین الاقوامی قانون سے متصادم نہیں ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ فلسطینیوں کو مقبوضہ مغربی کنارے کے 60 فیصد علاقے میں تعمیر کرنے کے لیے فوجی اجازت نامے درکار ہیں جو مکمل اسرائیلی کنٹرول میں ہے۔ تاہم، ایسے اجازت نامے بہت کم ہی دیئے جاتے ہیں اور فلسطینیوں نے جو مکانات بغیر اجازت کے تعمیر کیے ہیں، انہیں اسرائیلی حکام کسی بھی وقت مسمار کر سکتے ہیں۔
مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آباد کاروں کے حقوق کی ہمیشہ حمایت کرنے والے نفتالی بینیٹ کی طرف سے لیا گیا، یہ فیصلہ یقینی طور پر بائیں بازو کی حکومت کو جو چند ماہ قبل تشکیل پانے والے 8 اتحادی پارٹیوں میں ناراضگی کا باعث بنا۔ جس کا مقصد بنجمن نیتن یاہو کی مسلسل 12 سال تک وزیر اعظم کی حیثیت سے حکمرانی کو ختم کرنا ہے۔
اگرچہ اس فیصلے نے نفتالی حکومت کی ہم آہنگی کو کشیدہ کردیا، تاہم اتحادی پارٹنرز بظاہر اس ماہ کنیسٹ (اسرائیلی پارلیمنٹ) میں ہونے والی اہم قومی بجٹ ووٹنگ سے پہلے حکومت کو توڑنا نہیں چاہتے۔
کیونکہ بجٹ پاس کرنے میں ناکامی کی صورت میں تین سالوں میں پانچویں عام انتخابات کا انعقاد کرنا پڑے گا اور شاید نیتن یاہو کی اقتدار میں واپسی بھی ممکن ہوجائے۔
امریکی انتظامیہ نے یروشلم میں امریکی قونصل خانے کو دوبارہ کھولنے کو ملتوی کر دیا جو شہر میں فلسطینی آبادی کی خدمت کرے گا۔ دائیں بازو کی جماعتوں اور انتہائی قوم پرست اسرائیلیوں نے اس کی شدید مخالفت کی ہے اور یہ بھی نفتالی حکامت کے اتحاد کی تحلیل کا باعث بن سکتا ہے۔
اسرائیلی حکومت کے ایک اور فیصلے نے حکمراں اتحاد کو بھی تقسیم کر دیا، اسرائیلی حکومت نے 22 اکتوبر کو فلسطین میں چھ ممتاز سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے گروپوں کو دہشت گرد تنظیموں کے طور پر نامزد کیا ہے۔
اسرائیلی حکومت نے دعویٰ کیا کہ یہ چھ تنظیمیں مارکسسٹ-لیننسٹ پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین (PFLP) سے وابستہ ہیں، جو ماضی میں عام شہریوں کے قتل میں ملوث رہی تھی۔
دہشت گرد قرار دینے کے نتیجے میں اب اسرائیلی حکام کو دفاتر پر چھاپے مارنے، فنڈز کو منجمد کرنے اور ان تنظیموں کے لیے عوامی حمایت کے ساتھ ساتھ فنڈز جمع کرنے پر پابندی لگانے کی اجازت ہوگی۔
ان چھ تنظیموں کے رہنماؤں نے کہا کہ اس اقدام سے انسانی حقوق کو نقصان پہنچے گا، جب کہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی گروپوں نے اس فیصلے کو بے بنیاد اور بلاجواز قرار دیا اور نشاندہی کی کہ ان میں سے کچھ تنظیمیں انسانی حقوق کے لیے اہم کام انجام دیتی ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ امریکہ کو اس اقدام کے بارے میں خبردار نہیں کیا گیا تھا اور انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ عام طور پر ایک مضبوط سول سوسائٹی کی حمایت کرتا ہے اور اسرائیل سے ان کے استدلال کی وضاحت طلب کرے گا۔
دراصل یہودی آباد کاروں کے لیے 3000 سے زائد مکانات تعمیر کرنے اور فلسطینی سول سوسائٹی کی تنظیموں کو دہشت گرد قرار دینے کا فیصلہ لے کر دائیں بازو کے وزیر اعظم نفتالی بینیٹ ایک خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں۔
وہ اپنے دائیں بازو کے پیروکاروں کی تعداد بڑھانے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسرائیلی حکومت اپنے اتحادیوں، امریکہ اور یورپی یونین کے غصے کا سبب بھی بنتا ہے۔
نیو یارک ٹائمز کے یروشلم بیورو چیف پیٹرک کنگسلے ایک مضمون میں بتاتے ہیں کہ اس اعلان نے پہلے ہی بینیٹ حکومت اور بائیڈن انتظامیہ کے درمیان تناؤ بڑھا دیا ہے، جو ایسی سرگرمیوں کی مخالفت کرتی ہے جو مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں فلسطینی ریاست کے قیام کے ذریعے اسرائیل-فلسطینی تنازع کو حل کرنا مشکل بناتی ہے۔ اس اقدام نے اسرائیلی حکومت کے اندر اختلافات کو بھی بڑھا دیا ہے، جو نظریاتی طور پر مخالف جماعتوں کا ایک متنوع اتحاد ہے، جس نے بنجامن نیتن یاہو کو عہدے سے ہٹانے کے لیے اپنے بنیادی اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنے نازک اتحاد کو طول دینے کا وعدہ کیا ہے۔