نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن ایشیا میں امریکی خارجہ پالیسی کے اہداف پر از سر نو غور کررہے ہیں۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق ایشیائی ممالک کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کے ضمن میں سابقہ خارجہ پالیسی سے ہٹ نئے انداز میں غور کیا جاسکتا ہے۔
نئے صدر منتخب ہونے والے جو بائیڈن، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بہت سے اہم اور دلیرانہ اقدامات کو سرے سے تبدیل کرنا چاہتے ہیں یا اس میں رد و بدل کرنا چاہتے ہیں یا اس کو سختی سے روکنے والے ہیں۔
یہ ٹرمپ انتظامیہ کی 'امریکہ فرسٹ' کی پالیسیوں سے ایک علیحدہ تبدیلی کا اشارہ ہے، جہاں انہوں نے اتحادیوں اور خارجہ پالیسی اسٹیبلشمنٹ کو دونوں ہی شکوک و شبہات کی نگاہ سے دیکھا جبکہ شمالی کوریا کے کم جونگ ان اور روس کے ولادی میر پوتن جیسے مخالفین کے سلسلے میں نیا موقف اپنایا جاسکتا ہے۔
معروف سیاسی تجزیہ نگار اور سفارتی مصنف میتھیو لی نے کئی دہائیوں سے امریکی محکمہ خارجہ کا مطالعہ کیا ہے اور کہا کہ جنوبی ایشیائی خطہ ایک انتہائی نازک جگہ ہے اور ان ممالک کے ساتھ امریکی تعلقات کو احتیاط سے سنبھالنے کی ضرورت ہے۔
لی نے کہا 'مجموعی طور پر مجھے لگتا ہے کہ ایشیائی بحر الکاہل کے خطے میں تقریبا ہر ملک کے ساتھ صدر ٹرمپ کے تعلقات میں اس قسم کے خاتمہ یا کم از کم کمی دیکھنے کو مل رہے ہیں'۔
- مزید پڑھیں: کووڈ 19 کے خلاف جنگ میں اجتماعی اقدامات پر زور
'مجھے لگتا ہے کہ ہم بھارتی، آسٹریلیائی، نیوزی لینڈ، جاپانی، جنوبی کوریائی، بلکہ جنوب مشرقی ایشیائی ملک، آسیان ممالک اور دیگر ممالک سے بائیڈن کھل کر بات چیت کرسکتے ہیں'۔
لی نے مزید کہا کہ چین اور چین کی جارحیت سے سب سے زیادہ خطرہ ہے۔