پوری کائنات میں زمین ہی وہ مقام ہے؛ جہاں انسانی زندگی کے لیے ہوا، پانی، رہنے کے لیے مکان اور دیگر ضروریات کے سامان ہمہ وقت دستیاب ہیں۔ اس کے باوجود خلا میں آکسیجن اور پانی کی کھوج جاری ہے۔
آج ہی کے دن یعنی 20 جولائی 1969 کو اسی کوشش کی ابتدأ کرتے ہوئے انسان نے چاند پر پہلا قدم رکھا تھا۔ امریکہ کے نیشنل ایروناٹکس اینڈ اسپیس ایڈمنسٹریشن (ناسا) کے اپولو مشن 11 کے ذریعہ چاند پر پہلے قدم کی شروعات ہوئی۔ اس مشن کے ذریعے چاند تک انسان کی پہنچ ممکن ہو سکی ۔
یاد رہے کہ 16جولائی 1969 کو صبح 9:35 بجے اپولو 11 امریکی خلا بازوں کو لے کر چاند کے لیے روانہ ہوا تھا۔ اسی کے چار دن بعد نیل آرمسٹرانگ اور ان کے ساتھی خلاباز ایڈوین آلڈرین چاند کی سطح پر قدم رکھنے والے پہلے انسان تھے۔
خلائی سفر کے پائلٹ مائیکل کولینز اس جہاز پر ہی رہ گیا جو ان کو خلا سے واپس لانے والا تھا۔
پہلی بار امریکی خلانورد نیل آرمسٹرانگ نے 20 جولائی، 1969 کو چاند پر قدم رکھا تھا اور 25 جولائی کو زمین پر بہ حفاظت واپس پہنچا۔
معلومات کے مطابق یہ معرکہ سالہا سال کی ریاضت اور امریکی سائنسدانوں اور انجینئروں کی ان تھک محنت کا نتیجہ تھا، جنہوں نے نیل آرمسٹرانگ اور ان کے ساتھی خلانوردوں کو چاند پر پہنچانے کی لیے انتہائی حساس آلات سے لیس خلائی جہاز اپولو بنایا تھا۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ' اپولو 11 کے قمری مشن پر کام کرنے والوں کی اوسطاً عمر 27 سال تھی اور ان نوجوانوں کے گروپ کے بغیر انسان کبھی چاند کی سطح پر قدم نہیں رکھ سکتا تھا۔ '
اس طرح خلائی تحقیق کے ذریعے نیا تجربہ اور نئی تاریخ رقم کی گئی ، جس کے آج پچاس برس مکمل ہوگئے۔
بھارت بھی ان ممالک میں شامل ہوجائے گا؛ جو انسانوں کے بغیر سٹیلائٹ یا خلائی جہاز چاند تک پہنچانے کے لیے مسلسل کوشش کررہا ہے۔ بھارت کا خلائی مشن چندریان دو 22 جولائی 2019 پیر کو دوپہر 2:43 منٹ پر آندھراپردیش کے ضلع نیلور کے سری ہری کوٹہ کے ستیش دھون خلائی مرکز سے چھوڑا جائے گا، جو چاند کی سطح پر اترے گا۔