سوڈان کی عبوری حکومت اور متعدد باغی گروپز کے اتحاد نے امن معاہدے پر دستخط کردیا ہے۔ جس کا مقصد برسوں سے جاری خانہ جنگی کا خاتمہ بتایا گیا ہے۔
سوڈان میں گزشتہ کئی عشروں سے خانہ جنگی کے دوران کئی افراد ہلاک اور لاکھوں افراد ملک بھر کے مختلف خطوں میں بے گھر ہوگئے۔
جنوبی سوڈان کے دارالحکومت جوبا میں امن مذاکرات آغاز ایک برس قبل ہی ہو چکا تھا، جو کہ اب نتیجہ خیز اور کامیاب ہوا ہے۔
حکومت کے نمائندوں اور سوڈانی ریوولیوشنری فرنٹ (ایس آر ایف) کے نام سے مسلح گروپز کے اتحاد نے اس معاہدے پر دستخط کیے۔
وزیر اعظم عبداللہ ہمدوک نے جنوبی سوڈان کے دارالحکومت جوبا میں آمد کے بعد کہا ہے کہ 'اگلا سب سے بڑا چیلنج تمام مقامی اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ معاہدے اور اس کے فوائد کے لئے کام کرنا ہے'۔
اس معاہدے میں جن اہم نکات پر اتفاق ہوا ہے ان میں سکیورٹی، زمینی ملکیت، عبوری قانونی نظام ، اقتدار میں شراکت اور جنگ کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والے لوگوں کی واپسی شامل ہے۔
واضح رہے کہ چاڈ، قطر، مصر، افریقہ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی جانب سے اس معاہدے کی پہلے ہی سے کوششیں جاری تھی۔
جنوبی سوڈانی ثالثی ٹیم کے سربراہ توت گیٹلوک نے کہا ہے کہ 'آج ہم امن معاہدے پر پہنچے ہیں۔ ہم خوش ہیں۔ ہم نے یہ مشن مکمل کر لیا ہے۔ امن مذاکرات کامیاب ہوئے ہیں'۔
جنوبی سوڈان اور سوڈان کے فنکاروں نے مہمانوں کے لئے فن کا مظاہرہ کیا، جبکہ دارفور، جنوبی کورڈوفن اور بلیو نیل کے باغی گروپوں کے اراکین نے خوشی میں مارچ کیا۔ انھوں نے خوشی کے گیت گائے اور اپنی پارٹی قائدین کی تصاویر والے بینرز اٹھا رکھے۔
واضح رہے کہ اپریل سنہ 2019 میں تیس سال تک ملک میں برسر اقتدار رہنے والے صدر عمر البشیر کو ان کے عہدے سے ہٹا کر حراست میں لے لیا گیا تھا۔
وہیں دوسری جانب سوڈانی کمیونسٹ پارٹی (جو اس احتجاجی تحریک کا ایک حصہ ہے) نے البشیر کو گرانے میں مدد کی تھی۔ اس نے اس معاہدے کو 'سوڈان کی سالمیت اور مستقبل کے لئے حقیقی خطرہ' قرار دیا ہے۔