وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے عہد کیا ہے کہ وہ کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں حملہ کرنے والے حملہ آور کا نام کبھی نہیں لیں گی۔
وزیر اعظم نے کہا ' اسے (حملہ آور کو) اس شدت پسندانہ عمل سے بہت سی چیزیں مطلوب تھیں جن میں سے ایک شہرت (بدنامی) بھی تھی، اسی لیے آپ کبھی مجھے اس کا نام لیتے نہیں سنیں گے'۔
انھوں نے مزید کہا 'وہ شدت پسند ہے۔ وہ مجرم ہے۔ وہ انتہا پسند ہے۔ لیکن میں جب بھی اس کے بارے میں بات کروں گی وہ بے نام رہے گا، میں آپ سے التجا کرتی ہوں کہ ان کا نام لیں جنہوں نے اس واقعے میں جان گنوائی ہے نہ کہ اس کا جس نے اسے انجام دیا'۔
انھوں نے کہا 'ہم شدت پسندی کے خلاف خاموش نہیں بیٹھیں گے، ملک میں اس قسم کے واقعے کو قبول نہیں کیا جائے گا'۔
وزیر اعظم نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر بھی اپیل کہ کرائسٹ چرچ کے بندوق بردار کی ویڈیو یعنی لائیو سٹریمنگ کو شیئر نہ کیا جائے۔اصل ویڈیو کو جلد ہی ہٹا لیا گیا تھا لیکن اسے بہت تیزی کے ساتھ نقل کرکے دوسرے پلیٹ فارم جن میں یوٹیوب اور ٹوئٹر شامل ہیں، پر وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا دیکھا گیا۔
ٹوئٹر پر گردش کرنے والے ایک خط میں آسٹریلیا کے وزیر اعظم سکاٹ موریسن نے بھی دہشت گردانہ حملے میں انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کے بے لگام کردار پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
انھوں نے لکھا کہ ' انٹرنیٹ کا بے قابو استعمال ناقابل قبول ہے۔ اس پر قدغن لگایا جانا بے حد ضروری ہے۔'
دوسری جانب وزیر اعظم آرڈرن نے اراکین پارلیمان کو یقین دلایا کہ حملہ آور کو نیوزی لینڈ کے قانون کی پوری قوت سے سامنا کرنا ہوگا جبکہ نیوزی لینڈ کے تمام باشندوں سے کہا کہ اس جمعے کو مسلمانوں کو پہنچنے والے صدمے کا اعتراف کریں جو کہ مسلمانوں کی عبادت کا اہم دن بھی ہے اور حملے کے بعد کا پہلا ہفتہ بھی۔
نیوزی لینڈ کی امیگریشن سروس حادثے کے شکار افراد کے لواحقین کے ویزوں پر کام کر رہی ہے جو اپنے عزیزوں کے جنازے میں شرکت کے شدید متمنی ہیں۔
جمعے کو جو 50 مسلمان کرائسٹ چرچ کی مساجد میں ہلاک کئے گئے ان میں تارکین وطن، پناہ گزین اور پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت، ترکی، کویت، صومالیہ اور دوسرے ممالک کے شہری شامل ہیں۔
پیر کو وزیر اعظم آرڈرن نے بندوق حاصل کرنے کے قانون میں ترمیم کی بات بھی کہی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ حملہ آور نے فوجی طرز کے اسلحے کا استعمال کیا جس میں بعض تبدیلیاں کرکے اسے مزید مہلک بنایا گیا اور موجودہ قانون کے اعتبار سے یہ عمل غیر قانونی نہیں ہے۔