کورونا وائرس وبا نے دنیا کے مختلف ممالک میں ایک نئے مسئلے کو جنم دیا ہے اور پہلے سے غریب خطوں کے باشندوں کے سامنے غذا کی کمی پیدا ہو گئی ہے۔ ایسے میں اب بھوک سے بھی لوگوں کی موت ہونے کا خدشہ کافی بڑھ گیا ہے۔
کورونا وبائی امراض کی وجہ سے سفری پابندیاں اور خوف نے مریضوں کو اسپتالوں جانے اور کسانوں کو فصلوں کی کٹائی سے بھی روک رکھا ہے۔
مغربی افریقی ملک برکینا فاسو میں پہلے سے ہی نوزائیدہ بچے تغذیہ کی کمی سے دو چار ہیں کیونکہ ان کی غریب مائیں انہیں غذا کی کمی کے باعث دودھ پلانے سے قاصر ہیں۔ ملک میں نومبر - دسمبر میں عام طور پر فصلوں کی کٹائی کا موسم ہوتا ہے لیکن کورونا وبا کے باعث جب بویائی ہی نہیں ہوئی تو فصلوں کی کٹائی کیسے ہوگی اور ایسے میں ملک کے مختلف مقامت پر جہاں پہلے سے ہی غذائی قلت ہے وہاں اس مسئلے میں مزید اضافہ ہوگا۔
اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں عدم تغذیہ سے بچے ہر ماہ 10،000 کی شرح سے مر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے ایگزیکیوٹیو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلی نے حال ہی میں عالمی ادارہ کی سلامتی کونسل کو بتایا تھا کہ دنیا بھوک کی وبا کے دہانے پر ہے۔
انہوں نے کہا کہ ''ابھی قحط نہیں آیا ہے لیکن مجھے آپ کو متنبہ کرنا چاہئے کہ اگر ہم ابھی سے مالی امداد کے فقدان اور تجارت میں رکاوٹ سے بچنے کے لئے تیار نہ ہوں اور اس پر عمل نہ کریں تو ہمیں چند ہی مہینوں میں بہت بڑے قحط کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔''
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں لاک ڈاؤن اور کورونا وائرس کے خوف سے بہت کم بچے اسپتال پہنچ پا رہے ہیں۔
کابل کے اندرا گاندھی چلڈرن اسپتال کے ڈاکٹر نعمت اللہ عامر نے کہا کہ "ہمارے پاس پچھلے سال 30 سے 40 کی تعداد تک بچے تغذیہ کا شکار تھے۔ بعض اوقات ہم دو بچوں کو ایک بستر پر رکھتے تھے لیکن اب ہمارے یہاں تغذیہ کا شکار 14 بچے ایڈمٹ ہیں''۔
برکینا فاسو میں 40 فیصد سے زائد بچے کم وزن کے پیدا ہوتے ہیں کیونکہ ان کی ماؤں کو مکمل غذا نہیں مل پاتی ہے۔
اس کے علاوہ پہلے ہی سے جنگ اور قحط سے جوجھ رہے ممالک میں کورونا وائرس نے معاشی بحران پیدا کر دیا ہے۔
ملک بھر میں کورونا وائرس پھیلنے سے پہلے ہی برکینا فاسو کو غذائی بحران کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
امینیتا منڈے کا 14 سالہ بیٹا نفیسٹو نمپا یونیورسٹی اسپتال میں زیر علاج ہے۔
منڈے کا کہنا ہے کہ "اس بیماری کے دوران میرا بچہ کھانا خریدنے بازار نہیں جا سکا اور ہم اس بیماری کی وجہ سے دوچار ہوگئے۔ بیماری سے پہلے ہمارے پاس کچھ نہیں تھا اور اب اس بیماری کے بعد بھی ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔''
برکینا فاسو کے چیف مشن ڈاکٹر حسن مایاکی نے کہا کہ امدادی گروپ بدترین صورتحال سے بچنے کے لئے تیزی سے کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ کافی تشویشناک ہے اور اس کے لئے بہت زیادہ مستعدی اور توجہ کی ضرورت ہے۔