نغمہ نگار اور شاعر جاوید اختر کی حالیہ دنوں میں پاکستان دورے کی کئی ویڈیوز سامنے آئی ہے۔ ان میں سے کئی ویڈیوز میں وہ پاکستان کی تفریحی دنیا کے مشہور چہرے جیسے علی ظفر اور اداکار ثروت گیلانی کے ساتھ نظر آرہے ہیں۔ دراصل جاوید اختر لاہور میں ساتویں فیض فیسٹیول میں شرکت کے مقصد سے پاکستان میں تھے۔ اب ان کی اس فیسٹیول سے ایک ویڈیو سامنے آئی ہے، جس میں انہوں نے سخت لہجے میں پاکستان کی تنقید کی ہے اور کہا کہ ' بھارتی اب تک 26/11 کے حملوں کو نہیں بھولے ہیں اور اس کے ذمہ دار اس ملک میں اب بھی آزاد گھوم رہے ہیں'
-
Another day another humiliation for pakistan..well said #javedakhtar pic.twitter.com/19eIpGDI9O
— Gaurav (@SportsFreakhu) February 21, 2023 " class="align-text-top noRightClick twitterSection" data="
">Another day another humiliation for pakistan..well said #javedakhtar pic.twitter.com/19eIpGDI9O
— Gaurav (@SportsFreakhu) February 21, 2023Another day another humiliation for pakistan..well said #javedakhtar pic.twitter.com/19eIpGDI9O
— Gaurav (@SportsFreakhu) February 21, 2023
اختر کے علاوہ بھارت کے دیگر اردو کے معروف شاعر فیض احمد فیض کی یاد میں منعقدہ ساتویں فیض فیسٹیول میں شرکت کے لیے پاکستان میں تھے۔ اختر نے یہ بات سامعین میں بیٹھے ایک شخص کے جواب میں کہی جو انہیں تجویز دے ر ہے تھے کہ پاکستان کس طرح 'ایک مثبت، دوستانہ اور محبت کرنے والا ملک ہے'۔ اس شخص نے اختر سے درخواست کی کہ وہ پاکستانیوں کا پیغام بھارت لے جائیں۔ شخص نے کہا کہ 'آپ کئی بار پاکستان کا دورہ کرچکے ہیں۔۔ جب آپ واپس جاتے ہیں تو کیا آپ اپنے لوگوں کو بتاتے ہیں کہ یہاں کے لوگ اچھے ہیں، یہ صرف بمباری نہیں کرتے بلکہ ہار اور پیار سے ہمارا استقبال بھی کرتے ہیں؟۔ انہوں نے مزید کہا کہ ' ہم دونوں خطوں کے درمیان دوستانہ صورتحال چاہتے ہیں'۔
جاوید اختر نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ' ایک دوسرے پر الزام نہ لگائیں۔ اس سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ جو گرم ہے فضا، وہ کم ہونی چاہیے۔ ہم تو بمبیا لوگ ہیں۔ ہم نے دیکھا وہاں کیسے حملہ ہوا تھا۔ وہ لوگ ناروے سے تو نہیں آئے تھے وہ نہ مصر سے آئے تھے، وہ لوگ ابھی بھی آپ کے ملک میں گھوم رہے ہیں، تو یہ شکایت اگر بھارتیوں کے دل میں ہو تو آپ کو برا نہیں ماننا چاہیے'۔ اختر نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی مماثلت کے بارے میں آگاہی کی کمی ہے اور سرحد کے اس پار بہت سے لوگ ایک دوسرے کی ثقافتوں کے بارے میں نہیں جانتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ' بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ لاہور اور امرستر صرف 30 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے… آپ ہمارے بارے میں سب کچھ نہیں جانتے اور نہ ہی ہم اور اس علم کی کمی دونوں ممالک کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ یہ افسوسناک ہے کہ ہمارے درمیان نہ کوئی ثقافتی تبادلہ ہے، نہ ہی طلباؤں کا تبادلہ یا مواصلات کا'۔
اختر نے پاکستان کی تنگ نظری پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 'ہندوستان نے نصرت فتح علی خان، مہدی حسن، فیض احمد فیض جیسے پاکستان کے عظیم لوگوں کی میزبانی کی ہے لیکن پاکستان میں کبھی لتا منگیشکر کا شو نہیں ہوا'۔ مہدی حسن بھارت میں ایک مذہبی شخصیت تھے۔ جب وہ ہندوستان گئے تو شبانہ (اعظمی) نے ان کی میزبانی کی، میں نے اس تقریب کے لیے لکھا جسے لتا منگیشکر اور آشا بھوسلے نے پسند کیا۔ جب فیض صاحب تشریف لائے تو ایسا لگتا تھا کہ کوئی اتھارٹی تشریف فرما ہے… ان کا پروگرام ہر طرف نشر ہوتا تھا۔ کیا آپ نے کبھی پی ٹی وی پر ساحر (لدھیانوی)، کیفی (اعظمی) یا سردار جعفری کے انٹرویوز دیکھے ہیں؟ یہ ہندوستان میں دکھایا گیا، وہاں ہوا… تو مواصلاتی بندش دونوں طرف سے ہے اور شاید آپ کی طرف سے زیادہ ہے۔
اختر نے علاقائی اتحاد اور مشترکہ تاریخ کی ضرورت کے بارے میں بھی بات کی اور اپنے دکھ کا اظہار کیا کہ اور کہا کہ ' بھارت اور پاکستان میں الفاظ پر پابندی اور بائیکاٹ کرنے کا مقابلہ جاری ہے۔اختر نے کہا کہ ' آج بھی بھارت میں فیض کو بڑے پیمانے پر پڑھا جاتا ہے اور ان کو فالو کیا جاتا ہے۔ 'ان کے کاموں میں کچھ جادو تھا۔ وہ نہ صرف اردو میں بلکہ دیوناگری میں بھی شائع اور پڑھے جاتے ہیں۔ ان کے پرستار صرف پاکستان یا ہندوستان تک محدود نہیں ہیں'۔
جاوید اختر نے یہ بھی کہا کہ سیاسی ایجینڈے دونوں ممالک کے ثقافت کو برباد کر رہے ہیں۔ ہمسایہ ممالک کے درمیان نفرت پھیلنے کی وجہ زبان اور ثقافت ہے۔ جاوید کہتے ہیں کہ ' ہماری طرف سے زبان کے کچھ نام نہاد مسیحا، چاہے وہ اردو کے ہو یا کسی اور زبان کے، کہتے ہیں کہ 'اس لفظ کو ہٹا دو کیونکہ یہ ہمارا نہیں ہے۔ آپ ہٹاتے رہیں، زبان غریب تر ہوتی جائے گی'۔ انہوں نے مزید کہا کہ رسم الخط زبان نہیں ہے اور بہت سے ایسے الفاظ ہیں جو ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں استعمال کرتے ہیں وہ یا تو ترکی، پنجابی، یا حتیٰ کہ جاپانی بھی ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 'زبان کبھی ایک دن میں نہیں بنتی۔ برسوں بعد اس میں نئے الفاظ شامل ہو رہے ہیں۔ ہماری پوری ثقافتی تاریخ ہماری زبان میں ہے۔ الفاظ پر پابندی لگا کر آپ ثقافت کا دم گھٹ نہیں سکتے۔ انسان کی کئی شناختیں ہوتی ہیں لیکن اس کی سب سے اہم پہچان زبان ہے۔ جب آپ کسی زبان سے کٹ جاتے ہیں، تو آپ پوری ثقافت، اپنی شناخت، جڑوں سے کٹ جاتے ہیں'۔