ETV Bharat / city

بنارس: آئمہ مساجد، موذنین اور مدرسین کیوں بھوکے رہ رہے ہیں؟ - news of varanasi

کورونا وبا کے دوران آئمہ، موذنین اور مدرسین کی نہ مدارس یا مساجد انتظامیہ تنخواہیں دے رہا ہے اور نہ ہی قوم کے سرمایہ دار افراد مالی مدد کے لئے آگے آرہے ہیں۔

masjid
masjid
author img

By

Published : Jul 30, 2020, 10:39 AM IST

مساجد کے ائمہ و مؤذنین ومدرسین کا منصب اسلامی نقطہ نظر سے بہت ہی معزز مانا گیا ہے لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈاؤن میں ملک کے سبھی مدارس کو بند کردیا گیا اور مساجد میں نمازیوں کی تعداد محدود کردی گئی ایسے میں ملک کی مختلف مساجد و مدارس میں لاکھوں کی تعداد میں خدمات انجام دینے والے آئمہ، موذنین اور مدرسین کی نہ تو مدارس یا مساجد انتظامیہ مالی مدد کر رہی ہے اور نہ ہی قوم کے سرمایہ دار افراد، جس سے بیشتر ائمہ مساجد و مدرسین مالی مشکلات سے دو چار ہیں۔

بنارس: آئمہ مساجد، موذنین اور مدرسین کیوں بھوکے رہ رہے ہیں؟
ایک نجی مدرسے کے استاد محمد آصف نے بتایا کی لاک ڈاؤن کے بعد نجی مدارس میں پڑھانے والے مدرسین کی حالات ناگفتہ بہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اب تک کے دو مہینے کی تنخواہ باقی ہے۔ ایک وقت کھاتے ہیں ایک وقت بھوکے رہتے ہیں۔ انہوں مزید کہا کہ بیشتر نجی مدارس میں پڑھانے والے مدرسین شدید مالی بحران سے پریشان ہیں۔ مفتی ہارون رشید نقشبندی نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے آنے والے مشکلات سے بیشتر تاجر، کاروباری پریشان ہیں لیکن معمولی رقم پر مساجد و مدارس میں خدمات انجام دینے والے ائمہ موذن ومدرسین بھی شدید پریشان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس میں سب سے بڑا کردار مساجد کمیٹی یا مدارس انتظامیہ کی ہوسکتی ہے جو ان کی مالی امداد کر پریشانی دور کرسکتے ہیں۔
کورونا وبا کے دوران مسجد
کورونا وبا کے دوران مسجد
بنارس کے مفتی کمیٹی کے سیکریٹری مولانا حسین رضا حبیبی نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بنارس سمیت ملک کے مختلف علاقوں کے مساجد و مدارس میں خدمات انجام دینے والے اساتذہ و ائمہ کی تنخواہ معمولی رہتی ہیں۔ پہلے ہی ان کے گھر کے اخراجات مشکل سے پورا ہوتے تھے لیکن لاک ڈاؤن کے بعد بیشتر مساجد و مدارس کے ذمہ داران نے ان کی تنخواہ روک لی ہے جس کے بعد ان کی حالت یومیہ مزدور سے بھی بدتر ہو چکی ہے، دو وقت کھانے کے لئے بھی محتاج ہوگیے ہیں۔ مدارس و مساجد انتظامیہ بھی ان کا استحصال کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کے لوگ اگر چاہیں تو ان کی پریشانیوں کو دور کرسکتے ہیں لیکن بے حسی کا عالم یہ ہے کہ کہ بیشتر مساجد و نجی مدارس کے انتظامیہ کے اراکین ان کے مسائل کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے معزز منصب پر فائز آئمہ و مؤذن اور مدرسین شدید مالی بحران سے دوچار ہیں۔
بنارس
بنارس
انہوں نے کہا کہ اگر مسجد اور مدرسے میں چندہ کی رقم نہیں آرہی ہے اس کے باوجود بھی اگر انتظامیہ چاہے تو ان کی مشکلات کو دور کر سکتی ہے لیکن ان لوگوں کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے فاقہ کشی پر مجبور ہو چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کی بنارس کے مسجدوں میں بیشتر ائمہ کی تنخواہیں 2000 سے 3000 تک ہے۔ ایسے میں پہلے سے ہی ان کی گھر کے اخراجات مکمل نہیں ہو رہے تھے لیکن اب جب لاک ڈاؤن ہو گیا تو ان کی تنخواہیں روک لی گئی ہیں اور ان کے گھر کے اخراجات بری طرح متاثر ہوچکے ہیں۔

مساجد کے ائمہ و مؤذنین ومدرسین کا منصب اسلامی نقطہ نظر سے بہت ہی معزز مانا گیا ہے لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈاؤن میں ملک کے سبھی مدارس کو بند کردیا گیا اور مساجد میں نمازیوں کی تعداد محدود کردی گئی ایسے میں ملک کی مختلف مساجد و مدارس میں لاکھوں کی تعداد میں خدمات انجام دینے والے آئمہ، موذنین اور مدرسین کی نہ تو مدارس یا مساجد انتظامیہ مالی مدد کر رہی ہے اور نہ ہی قوم کے سرمایہ دار افراد، جس سے بیشتر ائمہ مساجد و مدرسین مالی مشکلات سے دو چار ہیں۔

بنارس: آئمہ مساجد، موذنین اور مدرسین کیوں بھوکے رہ رہے ہیں؟
ایک نجی مدرسے کے استاد محمد آصف نے بتایا کی لاک ڈاؤن کے بعد نجی مدارس میں پڑھانے والے مدرسین کی حالات ناگفتہ بہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اب تک کے دو مہینے کی تنخواہ باقی ہے۔ ایک وقت کھاتے ہیں ایک وقت بھوکے رہتے ہیں۔ انہوں مزید کہا کہ بیشتر نجی مدارس میں پڑھانے والے مدرسین شدید مالی بحران سے پریشان ہیں۔ مفتی ہارون رشید نقشبندی نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے آنے والے مشکلات سے بیشتر تاجر، کاروباری پریشان ہیں لیکن معمولی رقم پر مساجد و مدارس میں خدمات انجام دینے والے ائمہ موذن ومدرسین بھی شدید پریشان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس میں سب سے بڑا کردار مساجد کمیٹی یا مدارس انتظامیہ کی ہوسکتی ہے جو ان کی مالی امداد کر پریشانی دور کرسکتے ہیں۔
کورونا وبا کے دوران مسجد
کورونا وبا کے دوران مسجد
بنارس کے مفتی کمیٹی کے سیکریٹری مولانا حسین رضا حبیبی نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بنارس سمیت ملک کے مختلف علاقوں کے مساجد و مدارس میں خدمات انجام دینے والے اساتذہ و ائمہ کی تنخواہ معمولی رہتی ہیں۔ پہلے ہی ان کے گھر کے اخراجات مشکل سے پورا ہوتے تھے لیکن لاک ڈاؤن کے بعد بیشتر مساجد و مدارس کے ذمہ داران نے ان کی تنخواہ روک لی ہے جس کے بعد ان کی حالت یومیہ مزدور سے بھی بدتر ہو چکی ہے، دو وقت کھانے کے لئے بھی محتاج ہوگیے ہیں۔ مدارس و مساجد انتظامیہ بھی ان کا استحصال کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کے لوگ اگر چاہیں تو ان کی پریشانیوں کو دور کرسکتے ہیں لیکن بے حسی کا عالم یہ ہے کہ کہ بیشتر مساجد و نجی مدارس کے انتظامیہ کے اراکین ان کے مسائل کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے معزز منصب پر فائز آئمہ و مؤذن اور مدرسین شدید مالی بحران سے دوچار ہیں۔
بنارس
بنارس
انہوں نے کہا کہ اگر مسجد اور مدرسے میں چندہ کی رقم نہیں آرہی ہے اس کے باوجود بھی اگر انتظامیہ چاہے تو ان کی مشکلات کو دور کر سکتی ہے لیکن ان لوگوں کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے فاقہ کشی پر مجبور ہو چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کی بنارس کے مسجدوں میں بیشتر ائمہ کی تنخواہیں 2000 سے 3000 تک ہے۔ ایسے میں پہلے سے ہی ان کی گھر کے اخراجات مکمل نہیں ہو رہے تھے لیکن اب جب لاک ڈاؤن ہو گیا تو ان کی تنخواہیں روک لی گئی ہیں اور ان کے گھر کے اخراجات بری طرح متاثر ہوچکے ہیں۔
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.