بھارتی سیاستداں جہاں اپنے نفرت انگیز بیانات سے گنگا جمنی تہذیب کو برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ وہیں گنگا جمنی تہذیب کو برقرار رکھنے کے لیے ہزاروں مثالیں قائم کی جاتی ہیں۔ ایسی ہی متعدد مثالیں وزیراعظم کے پارلیمانی حلقہ بنارس میں بھی نظر آتی ہے۔
گنگا جمنی تہذیب کی ایک مثال ضلع بنارس کے چوک علاقے چوکھمبامیں واقع جناتی مسجد اور گوپال مندر ہے جس کی دیواریں ایک دوسرے سے بالکل متصل ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جناتی مسجد کے متولی ایک غیر مسلم کمیونیٹی کے ضعیف العمر بیچن یادو ہیں جو تقریبا ساٹھ برس سے مسجد کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔
مسجد کے اندرونی صحن میں چار درویشوں کی مزار بھی ہے اور ہر ماہ مزار پر لنگر تقسیم ہوتا ہے اور قرآن خوانی کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔
15 برس سے اذان اور مسجد کی صاف صفائی کا کام کرنے والے نظام الدین بتاتے ہیں کی چوک علاقے میں پوری آبادی ہندو سماج کی ہے جبکہ دور دراز سے مسلم لوگ یہاں نماز پڑھنے آتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ جب بھی مسجد میں کوئی پروگرام ہوتا ہے تو ہندو مذہب کے لوگ پورا تعاون کرتے ہیں۔
مسجد کی دیواروں سے متصل گوپال مندر ہے جو برسوں قدیم ہے جہاں ہزاروں کی تعداد میں روزانہ زائرین آتے ہیں اور اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں ایک طرف جہاں مندر میں بھجن کرتن اور دیگر عبادات کو انجام دیا جاتا ہت تو دوسری طرف نماز اور آذان کا پرکیف منظر ہوتا ہے۔
بیچن یادو بتاتے ہیں کہ یہاں ہندو مسلم آپس میں متحد ہیں، ہم لوگوں کے مابین کوئی بھی تفریق یا بھید بھاؤ نہیں ہے، مسجد میں ہندو سماج کے لوگ بھی جاتے ہیں جس پر مسلمان کو کوئی بھی اعتراض نہیں ہوتا ہے۔