بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر پروفیسر آفتاب احمد آفاقی نے پروفیسر ظفر احمد صدیقی کے انتقال پر رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ بنارس ہندو یونیورسٹی کے قابل فخر فرزندوں میں سے ایک تھے خاص کر یہاں کے اردو شعبہ کو ان پر ناز تھا وہ ایک اہم ادیب، محقق اور عالم دین تھے جو ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ آج ان کا انتقال پورے اردو دنیا کے لیے عظیم نقصان ہے۔
مرحوم ظفر احمد صدیقی کی جو تعلیم و تربیت مشرقی خطوط پر ہوئی تھی وہ انہوں نے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو سے حاصل کی۔ اس کے بعد باضابطہ طور پر بنارس ہندو یونیورسٹی سے اردو میں مختلف ڈگریاں حاصل کیں اور پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی یہیں سے حاصل کی اور یہیں سے ملازمت کی شروعات کی۔ وہ بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں سینئر لیکچرار رہے بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی چلے گئے جہاں پر شعبہ اردو میں ریڈر صدر اور ڈین کے عہدے پر فائز رہے۔ حال ہی میں وہ اپنی ملازمت سے سبکدوش ہوئے کہ ان کی طبیعت بگڑ گئی اور علاج کے دوران ہی خالق حقیقی سے جا ملے۔
ظفر احمد صدیقی نے اردو ادب میں کارہائے نمایاں انجام دیا ہے۔ خصوصاً کلاسکی ادب پر ان کا امتیازی کام شمار کیا جاتا ہے۔ ظفر احمد صدیقی نہ صرف اردو زبان پر بلکہ عربی اور فارسی زبان پر بھی مہارت رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ معروف محقق مرحوم پروفیسر حنیف نقوی کہا کرتے تھے کہ جب بھی عربی اور فارسی کا کوئی مشکل لفظ آتا تھا تو مولانا ظفر احمد صدیقی کے ذریعے حل کراتا تھا۔ اس سے واضح ہوتا ہے پروفیسر مرحوم ظفر احمد صدیقی کی قابلیت ممتاز محقق کی نظر میں کیا تھی۔
یہ بھی پڑھیں: راجستھان: محمد اظہرالدین کار حادثہ میں بال بال بچے
پروفیسر آفتاب احمد آفاقی نے بتایا کہ 1979 سے 1998 تک ظفر احمد صدیقی نے بنارس ہندو یونیورسٹی میں لیکچر اور سینئر لیکچر کے عہدے پر رہ کر طلبہ وطالبات کو درس دیا اس کے بعد وہ علی گڑھ چلے گئے جس کا ملال خصوصی طور سے بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبہ اردو کو ہمیشہ رہے گا۔
پروفیسر آفتاب احمد آفاقی نے کہا کہ مرحوم ظفر نے مسلسل محنت کرنے اور علم کے لیے ہمیشہ جد و جہد کرتے رہنے کی ترغیب دی۔ ظفر احمد صدیقی نے خود کو کبھی بی ایچ یو کی یادوں سے الگ نہیں کیا اور ہمیشہ بی ایچ یو کو اپنے دل میں بسائے رکھا، یہ ہمارے شعبے کے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں کہ مرحوم ظفر احمد صدیقی جیسی شخصیت کا نام ہمارے شعبے کے ساتھ جڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مستقبل میں جب اردو والے خود کو ظفر احمد صدیقی کے دبستان سے جوڑ کر فخر محسوس کر رہے ہونگے تو اس وقت بھی ہم لوگ فخر محسوس کریں گے کہ ہم نے ظفر احمد صدیقی کو قریب سے دیکھا اور سنا ہے۔