مرحوم رکن الدین کے بہت ہی عزیز احمد اعظمی بتاتے ہیں کہ' ابتدائی دور میں انہوں نے نعتیہ کلام و منقبت میں طبع آزمائی کی، لیکن جب مشاعروں کی دنیا میں قدم رکھا تو طنز و مزاح کی جانب مائل ہوگئے، ان کی شاعری میں طنز و مزاح کی وہ چاشنی ہوتی ہے جسے سن کر انسان برجستہ طور پر خود کو ہنسنے سے نہیں روک سکتا تھا'۔
کتنے گل ہم نے کھلائے ہیں یہاں اور وہاں میری بیگم کو خبر ہو یہ ضروری تو نہیں-
میں محبت کا پجاری ہوں سیاست کا نہیں، ساتھ میں میرے گزر ہو یہ ضروری تو نہیں
رکن بنارسی کا یہ شعر...
ایک کوے کو چوٹ لگی تو سارے کوے چینخ پڑے، زخمی ایک انسان پڑھا ہے ہم سے تم سے مطلب کیا
نعتیہ کلام
اپنے محبوب کی حفاظت میں غار پر مکڑیوں کا جالا ہے۔
جس کی حوروں نے آرزو کی تھی، کیسے کہہ دوں بلال کالا ہے
عرش پر جس کا بول بالا ہے وہ مدینہ کا رہنے والا ہے۔
شعر میں اپنا تیور ظاہر کرتے ہوئے۔
یہ دبانے سے دب نہیں سکتا، رکن کا تاؤ خاندانی ہے۔
رکن الدین بنارسی کے لواحقین میں چار لڑکے اور تین لڑکیاں شامل ہیں، سب کی شادی ہوچکی ہے۔ اہلیہ کا تقریباً 35 برس قبل انتقال ہوگیا تھا، دو دن کی قلیل علالت کے بعد آج صبح اپنے آبائی وطن بنارس کے گوری گنج علاقے میں طنز و مزاح کا یہ سورج بھی غروب ہوگیا۔
قضیٰ قریب ہے آرزو کا یہ عالم
سفید بالوں نے کالا گلاب مانگا ہے۔۔۔