جموں و کشمیر کی لیفٹینٹ گورنر انتظامیہ نے رواں برس مئی کے بجائے 26 جولائی کو دربار مو جموں سے سرینگر منتقل کرنے کا اعلان کیا ہے۔
جموں و کشمیر میں دربار مو کی تاریخ 150 برس پرانی ہے جب مہاراجہ رنبیر سنگھ کے دور اقتدار میں دارالحکومت کو چھ ماہ بعد سرما میں جموں اور گرما میں سرینگر منتقل کیا جاتا تھا۔
دربار مو کی منتقلی سے جموں و کشمیر میں سیول سیکریٹریٹ میں تعینات ہزاروں ملازمین کی نقل مکانی کے علاوہ فائلز وغیرہ بھی منتقل کی جاتی ہیں جس میں دو سو کروڑ روپے کا بوجھ سرکاری خزانے کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
لاک ڈاؤن کے باعث رواں برس دربار مو کی سرینگر منتقلی موخر ہوگئی ہے اور اب انتظامیہ نے اس کو سرینگر منتقل کرنے کی تاریج 26 جولائی بتائی ہے۔
وہیں جموں و کشمیر کی عدالت عالیہ نے گزشتہ ماہ دربار مو کی سخت تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس عمل سے سرکاری خزانے کا زیاں ہوتا ہے، لہٰذا اس کی منتقلی پر مرکزی سرکار کو غور و فکر کرنی چاہئے۔
لیکن جموں و کشمیر میں دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کی منسوخی اور پانچ اگست کے بعد دیگر بڑی قانونی تبدیلیاں رونما ہونے کے بعد اب لوگوں میں دربار مو کے تئیں خدشات پیدا ہوئے ہیں۔
عوام کا کہنا ہے کہ پانچ اگست سے سیاسی و انتظامی امور پر جس طرح سے فیصلے تھوپے جا رہے ہیں اس سے خدشہ یہی ہے کہ شاید اس سال کشمیر آخری بار دربار مو دیکھے گا اور پھر یہ بھی ایک تاریخ رہے گی۔
دربار مو کی منتقلی کے سلسلے میں انتظامیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ کووڈ 19 کی صورتحال کے پیش نظر جموں خطے کے ملازمین جموں کے سیول سیکریٹریٹ میں کام کریں گے جبکہ وادی سے تعلق رکھنے والے ملازمین سرینگر کی ونگ میں کام انجام دیں گے۔
اس ضمن میں بدھ کو انتظامیہ نے احکامات صادر کیے ہیں کہ محکموں کے اعلیٰ عہدیداروں کیلئے اس نئے انتظام کے تحت کام کا شیڈول مرتب کیا جائے۔
وہیں سیول سیکریٹریٹ میں تعینات ملازمین بھی کہہ رہے ہیں کہ اس صورت میں کام کرنا ممکن نہیں ہوگا اور شاید وہ بھی آخری بار اس دربار مو کا حصہ ہوں گے۔