موٹر سائیکل پر سوار نامعلوم مسلح افراد نے شجاعت بخاری پر اُس وقت فائرنگ کی جب وہ اپنے اخبار کے دفتر سے نکل کر واپس گھر کی جانب روانہ ہو رہے تھے۔
پولیس کے مطابق بخاری عسکریت پسندوں کی فائرنگ کا نشانہ بنے۔
شجاعت بخاری کا تعلق شمالی کشمیر کے کریری علاقے سے تھا۔ 30 برس قبل کشمیر ٹائمز میں ایک ٹرینی رپورٹر کے طور پر اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز اس وقت کیا جب کشمیر نامساعد حالات کی زد میں تھا۔
وہ مقامی، ملکی اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ جڑے رہے اور عمر کے آخری برسوں میں اپنی ادارت میں اردو، انگریزی اور کشمیری زبان میں اخبارات شائع کئے۔
انہوں نے سنہ 2008 میں کشمیر میڈیا گروپ نامی صحافتی ادارے کی بنیاد رکھی اور اسی کے تحت انگریزی روزنامہ رائزنگ کشمیر، اُردو روزنامہ بلند کشمیر، اُردو ہفت روزہ کشمیر پرچم اور کشمیری زبان کا ہفت وار اخبار سنگر مال جاری کیے۔
کشمیری زبان کو فروغ دینے میں شجاعت بخاری کا اہم رول رہا اور وہ اس زبان میں لکھے گئے ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے سرگرم تنظیم ادبی مرکز 'کمراز' کے صدر بھی رہے ہیں۔
شجاعت بخاری اپنی بیباکانہ صحافت اور نظریات کو پیش کرنے سے کبھی باز نہیں آئے ۔ انہوں نے "ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے " کے طرز پر اپنے دل پر گزرنے والی کیفیت رقم کی۔
شجاعت بخاری کی صحافت کا مرکزی موضوع کشمیر اور اس سے جڑے سیاسی مسائل ہوتے تھے۔اس مسئلے کے ساتھ انکی وابستگی اتنی زیادہ ہوئی تھی کہ وہ دنیا کے کونے کونے میں اس پر لکھتے یا باتیں کرتے نظر آرہے تھے۔ انکے ساتھیوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہی بات انکی ناگہانی موت کا بھی باعث بنی۔
بے لاگ اور بے باک صحافت کا جو چراغ انہوں نے روشن کیا ہے وہ پھونکوں سے بجھایا نہیں جاسکتا۔ ان کے جانشین ان کے صحافتی مشن کو آگے لے جانے کے لیے تیار ہیں۔