بھارتی فوج نے جمعرات کو دعویٰ کیا ہے کہ جنوبی کشمیر کے شوپیاں ضلع کے امشی پورہ علاقے میں امسال جولائی کے مہینے میں ہوئے فرضی تصادم آرائی میں ملوث دو فوجی اہلکاروں کے ثبوتوں کو درج کرنے کی کارروائی مکمل ہو چکی ہے۔
سرینگر میں تعینات دفاعی ترجمان کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ 'ثبوتوں کو درج کرنے کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔ اس وقت تمام ثبوتوں کی جانچ قانونی مشیروں کے مشورے کے ساتھ متعلقہ حکام کی جانب سے ہو رہی ہے۔'
انہوں نے بتایا کہ فوج نے اس فرضی تصادم میں ملوث اپنے دو اہلکاروں کے خلاف ثبوت کا خلاصہ مکمل کرلیا ہے جس میں تین شہریوں کو ہلاک کردیا گیا تھا اور ممکنہ طور پر عدالتی مارشل ہوسکتا ہے جو رسمی کارروائیوں کی تکمیل کے بعد ہوسکتا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ 'بھارتی فوج اپنی کارروائیاں ربط و ضبط سے کرنے میں یقین رکھتی ہے۔'
قابل ذکر ہے کہ فوج نے رواں سال کے اوائل میں اس معاملے میں انکوائری کا حکم دیا تھا جب سوشل میڈیا پر ایسی اطلاعات سامنے آنے کے بعد کہ عسکریت پسندوں کے نام سے تین نوجوانوں کو اہلکاروں نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا۔
کورٹ انکوائری جس نے ستمبر ماہ کے شروع میں اپنی تحقیقات مکمل کی، کو 'ابتدائی پہلو' کے شواہد مل گئے تھے کہ فوج نے 18 جولائی کو ہونے والے فرضی تصادم کے دوران آرمڈ فورسز نے اسپیشل پاور ایکٹ (اے ایف ایس پی اے) کے تحت حاصل اختیارات سے تجاوز کر لیا تھا جس میں تین افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس کے بعد فوج نے کارروائی کا آغاز کیا تھا۔
اس معاملے کی پیشرفت کے بارے میں جانکاری رکھنے والے عہدیداروں نے کہا کہ فوج کے دونوں اہلکاروں کو اے ایف ایس پی اے 1990 کے تحت دئے گئے اختیارات کی خلاف ورزی کرنے اور چیف جسٹس آف آرمی اسٹاف کے ڈی اوز اور ڈوٹز کی پیروی نہ کرنے پر عدالت مارشل کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جیسا کہ سپریم کورٹ نے منظور کیا ہے۔
واضح رہے کہ فوج اور پولیس نے 18 جولائی کو اپنے بیانات میں جنوبی ضلع شوپیاں کے امشی پورہ میں تین عدم شناخت عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
اس مبینہ فرضی تصادم کے تین ہفتے بعد شوپیاں میں لاپتہ ہونے والے راجوری کے تین نوجوان مزدوروں کے والدین نے لاشوں کی تصویریں دیکھ کر ان کی شناخت اپنے تین 'بے گناہ بیٹوں' کے طور پر کی تھی۔ ہلاک شدہ نوجوانوں میں سے 25 سالہ ابرار احمد کے والد محمد یوسف نے بتایا کہ 'فرضی' تصادم میں مارے گئے دیگر دو نوجوانوں کی شناخت اپنی سالی اور اپنے سالے کے لڑکوں بالترتیب 16 سالہ محمد ابرار اور 21 سالہ امتیاز احمد کے طور پر کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'ابرار احمد، محمد ابرار اور امتیاز احمد ایک خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ امتیاز احمد مزدوری کرنے کے لیے شوپیاں گیا ہوا تھا۔ امتیاز نے ابرار احمد اور محمد ابرار کو بھی فون کر کے وہاں بلا لیا۔ دونوں یہاں سے 15 جولائی کو روانہ ہو کر 130 کلو میٹر کا پہاڑی راستہ طے کرتے ہوئے 17 جولائی کو وہاں پہنچے'۔
انہوں نے کہا کہ 'رات کے آٹھ بجے انہوں نے ہمیں فون کیا کہ ہم یہاں پہنچ گئے ہیں۔ پونے نو بجے سے ہمارا ان کے ساتھ رابطہ منقطع ہوگیا۔ یہی وہ رات ہے جس دوران انہیں فرضی تصادم میں ہلاک کیا گیا۔'
محمد یوسف کے مطابق تینوں نوجوانوں کے پاس آدھار کارڈ تھے لیکن فوج نے ان کی شناخت چھپائی جس کے بعد انہیں ضلع بارہمولہ کے علاقے گانٹہ مولہ میں واقع غیر ملکی عسکریت پسندوں کے لیے مخصوص قبرستان میں دفن کیا گیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'ہمارے دو مطالبات ہیں۔ ایک تو ہمیں بچوں کی لاشیں چاہئیں۔ ہم انہیں یہاں دفن کرنا چاہتے ہیں۔ میرا دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ ملوث فوجیوں کو پھانسی کی سزا دی جائے تاکہ آئندہ اس طرح کے دردناک واقعات پیش نہ آئیں'۔