جموں وکشمیر میں گزشتہ ایک ماہ کے زائد عرصے سے سیاسی سرگرمیوں میں تیزی دیکھنے کو مل رہی ہے۔مختلف سیاسی جماعتیں جہاں لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے جلسے جلوس کا انعقاد عمل میں لا رہی ہیں وہیں ان مین اسٹریم سیاسی جماعتوں Mainstream Political Parties In J&K کے ایک دوسرے کے خلاف بیان بازیاں بھی تیز ہوگئی ہیں اس کے علاوہ کہیں پر پارٹی کنونشن منعقد کئے جارہے ہیں ،کہیں پر ممبر شپ مہم تو کہیں پر سیاسی رہنما اپنے حامیوں کے ساتھ احتجاج کرتے ہوئے دیکھائی دیتے ہیں۔
جموں و کشمیر میں سیاسی سرگرمیوں Political Activity In J&K میں آئی اس طرح اچانک تیزی سے اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ بہت جلد مرکز کی زیر انتظام علاقہ میں اسمبلی انتخابات منعقد کروائے جاسکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
- Omar Abdullah In Ramban: عمر عبداللہ کا رامبن میں عوامی اجتماع سے خطاب
- PDP President Mehbooba Mufti at Jantar Mantar: پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی کا جنتر منتر پر احتجاج
سیاسی مبصرین کے مطابق اب اگر انتخابات کی بھنک لگنے کے بعد یہ سیاسی پارٹیاں کسانوں کی طرز پر کشمیر میں احتجاج کرنے کی باتیں کہہ رہیں تو یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے اور نہ ہی اس سے لوگوں پر کوئی اثر پڑنے والا ہے۔
مزید پڑھیں: Internal Crisis in J&K Congress: جموں و کشمیر کانگریس داخلی انتشار کا شکار
سیاسی مبصر ڈاکٹر شیخ شوکت Political Analyst Dr. Sheikh Showkat کی رائے میں یہاں کی علاقائی جماعتوں سمیت کانگریس اور بی جی پی کے پاس فی الحال کوئی ٹھوس ایجنڈا نہیں ہے۔دفعہ 370 کو ختم کرنے والی جماعت بی جے پی ہی اب ریاستی درجے کی بحالی کے نام پر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ان سرگرمیوں سے سیاسی جماعتیں عوام کے مزاج کو بھانپنے کی کوششوں میں لگی ہیں۔ حد بندی کے بعد جوں جوں جموں وکشمیر میں اسلمبی انتخابات کا وقت نزدیک آتا جائے گا ۔مین اسٹریم سیاسی جماعتیں لوگوں کے نبظ کو ٹٹول کر ہی اپنا ایجنڈا طے کریں گے۔ پھر کس جماعت کو کتنا فائدہ ہوگا وہ مقدر کی بات ہے۔