دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد جہاں ایک طرف جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام لایا گیا، وہیں دوسری جانب جموں و کشمیر کے منسوخ شدہ آئین کے تحت کام کرنے والے کئی کمیشن اور کمیٹیوں کو بھی ہٹا دیا گیا ہے۔ ان تبدیلیوں سے عوام تو عوام انتظامیہ بھی حیران و پریشان ہے۔
سرینگر میں واقع اسٹیٹ کنزیومر کمپلینٹس ریڈرسل کمیشن Consumer Complaints Redressal Commission (کنزیومر کورٹ) کے دفتر میں پانچ آگست کے بعد کوئی بھی کام انجام نہیں دیا گیا۔
انتظامیہ کے مطابق ریاستی کنزیومر کورٹ جموں و کشمیر تنظیم نو قانون 2019 کے نفاذ کے ساتھ ہی بند ہوگیا اور اب یہ قومی کمیشن کے تحت کام کریں گے۔ مگر زمینی سطح پر ایسا کب سے ممکن ہو پائے گا اس کا کوئی واضح جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔
کنزیومر کورٹ Consumer Court میں اپنی شکایت درج کرانے آئے ایک مقامی شہری محمد شعیب کا کہنا تھا کہ 'پانچ اگست سے وہ اس دفتر کے لگاتار چکر کاٹ رہے ہیں۔ یہاں چند ہی ملازمین دکھائی دیتے ہیں اور مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں دہلی جا کر ہی اپنی شکایت درج کراؤں۔'
انہوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ محض 10,000 روپے کی شکایت کے لیے دہلی جاکر مزید اخراجات برداشت کروں، یہ کہاں تک ٹھیک ہے؟
اس حوالے سے جب ای ٹی وی بھارت نے جموں و کشمیر انتظامیہ سے رابطہ کیا تو ایک سینیئر آفیسر نے اطراف کرتے ہوئے کہا کہ " کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ 1986 کے تحت یہ عدالت سنہ 2011 اکتوبر کو قائم کی گئی تھی تاہم دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی کی وجہ سے یہ ایکٹ بھی ختم ہو گیا۔ اب اس کورٹ کو دوبارہ مرکزی قانون کے تحت قائم کرنا ہے اور اس پر کام جاری ہے۔"
اُن کا مزید کہنا ہے کہ "تمام لوازمات تقریباً مکمل ہو چکے ہیں، اُمید ہے کہ آنے والے دو تین مہینوں میں ان عدالتوں میں کام شروع ہو جائے گا۔"
مرکزی قانون کے تحت قائم ہونے کے بعد کنزیومر کورٹ کے کام کے بارے میں بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ "جموں و کشمیر کے ہر ضلع میں کنزیومر کورٹ ہوگا اور یہ کورٹ ایک کروڑ روپے تک کے معاملے حل کرنے کا اختیار رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے ان عدالتوں میں صرف دس لاکھ روپے تک کے معاملے ہی سنے جاتے تھے۔
Absence of Consumer Court in J&K: دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد سے یوٹی میں کنزیومر کورٹ بند - Jammu and Kashmir Reorganization Act 2019
دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی Article 370 Abrogation کے بعد جہاں ایک طرف جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام لایا گیا، وہیں دوسری جانب جموں و کشمیر کے منسوخ شدہ آئین کے تحت کام کرنے والے مختلف کمیشنز اور کمیٹیوں کو بھی ختم کر دیا گیا ہے۔
دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد جہاں ایک طرف جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام لایا گیا، وہیں دوسری جانب جموں و کشمیر کے منسوخ شدہ آئین کے تحت کام کرنے والے کئی کمیشن اور کمیٹیوں کو بھی ہٹا دیا گیا ہے۔ ان تبدیلیوں سے عوام تو عوام انتظامیہ بھی حیران و پریشان ہے۔
سرینگر میں واقع اسٹیٹ کنزیومر کمپلینٹس ریڈرسل کمیشن Consumer Complaints Redressal Commission (کنزیومر کورٹ) کے دفتر میں پانچ آگست کے بعد کوئی بھی کام انجام نہیں دیا گیا۔
انتظامیہ کے مطابق ریاستی کنزیومر کورٹ جموں و کشمیر تنظیم نو قانون 2019 کے نفاذ کے ساتھ ہی بند ہوگیا اور اب یہ قومی کمیشن کے تحت کام کریں گے۔ مگر زمینی سطح پر ایسا کب سے ممکن ہو پائے گا اس کا کوئی واضح جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔
کنزیومر کورٹ Consumer Court میں اپنی شکایت درج کرانے آئے ایک مقامی شہری محمد شعیب کا کہنا تھا کہ 'پانچ اگست سے وہ اس دفتر کے لگاتار چکر کاٹ رہے ہیں۔ یہاں چند ہی ملازمین دکھائی دیتے ہیں اور مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں دہلی جا کر ہی اپنی شکایت درج کراؤں۔'
انہوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ محض 10,000 روپے کی شکایت کے لیے دہلی جاکر مزید اخراجات برداشت کروں، یہ کہاں تک ٹھیک ہے؟
اس حوالے سے جب ای ٹی وی بھارت نے جموں و کشمیر انتظامیہ سے رابطہ کیا تو ایک سینیئر آفیسر نے اطراف کرتے ہوئے کہا کہ " کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ 1986 کے تحت یہ عدالت سنہ 2011 اکتوبر کو قائم کی گئی تھی تاہم دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی کی وجہ سے یہ ایکٹ بھی ختم ہو گیا۔ اب اس کورٹ کو دوبارہ مرکزی قانون کے تحت قائم کرنا ہے اور اس پر کام جاری ہے۔"
اُن کا مزید کہنا ہے کہ "تمام لوازمات تقریباً مکمل ہو چکے ہیں، اُمید ہے کہ آنے والے دو تین مہینوں میں ان عدالتوں میں کام شروع ہو جائے گا۔"
مرکزی قانون کے تحت قائم ہونے کے بعد کنزیومر کورٹ کے کام کے بارے میں بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ "جموں و کشمیر کے ہر ضلع میں کنزیومر کورٹ ہوگا اور یہ کورٹ ایک کروڑ روپے تک کے معاملے حل کرنے کا اختیار رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے ان عدالتوں میں صرف دس لاکھ روپے تک کے معاملے ہی سنے جاتے تھے۔