وادی میں نشے کی لت میں 16سے30 سال کے درمیانی عمر کے نوجوان زیادہ راغب ہورہے ہیں ۔ جس میں نہ صرف نوجوان لڑکے شامل ہیں بلکہ نوجوان لڑکیوں کی تعداد بھی اچھی خاصی دیکھی جارہی ہے ۔
ایک طرف جہاں منشیات کے خلاف سرکاری سطح پر بڑے پیمانے پر مہم جاری ہے تاہم دوسری طرف یہاں منشیات کی کے استمعال میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے عوامی سطح پر بے چینی پائی جارہی ہے
وادی کشمیر اب افیون،ہیروئن اور برونشوگر وغیرہ کا بین الاقوامی سطح کا ٹرانزٹ پوائنٹ بن رہا ہے اور منشیات کے اوور ڈوز کی۔وجہ سے اب آئے روز نوجوانوں کے مرنے کی خبریں بھی موصول ہورہی ہیں۔
ریکارڈ کے مطابق 2016 میں 15 فیصد سے بڑھ کر رواں برس کے پہلے 6 مہینے تک 90فیصد تک پہچ گئی ہے۔
نشہ چھڑانے والے اس مرکز کے انچارج ڈاکٹر یاسر احمد راتھر نے وادی کشمیر میں منشیات کی اس تشویش ناک رجحان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس لت میں مبتلہ ہر ایک طبقہ سے وابستہ افراد ہورہے ہیں۔شادی شدہ سے لے کر غیر شاد ی شدہ اور ان پڑھ سے لےکر اعلی تعلیمی یافتہ ۔
انہوں نے کہا کہ وادی کشمیر میں بڑھتی منشیات کی یہ بدعت وبائی صورتحال اختیار چکی ہے۔
ریاست خاص کر وادی کشمیرمیں منشیات کے پھیل رہے وبا کو ختم کرنے کے لیے ریاستی انتظامیہ کو ٹھوس اور کارگر اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے وہیں سماج کے ذی حس لوگوں پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بھی اس بدعت کا قلع قمع کرنے کے لئے آگے آکر اپنا مثبت رول ادا کریں۔تبھی جاکر قوم کے مستقبل یعنی نوجوان نسل کی زندگیوں کو ختم ہونےسے بچایا جا سکتا ہے ۔