لوک سبھا میں این آئی اے ترمیمی ایکٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے رکن پارلیمان جسٹس (ر) حسنین مسعودی نے کہا کہ 2008 کے اصل این آئی اے ایکٹ میں ایک فرد کے بنیادی حقوق اور ذاتی آزادی کا فقدان تھا اور موجودہ ترمیم میں یہ نقص ابھی برقرار ہے۔
انہوں نے کہا کہ دفعہ 21 میں ایک فرد کو زندگی جینے اور ذاتی آزادی کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے اور ایک فرد کو قانونی طریقہ کار کے لئے زندگی جینے اور ذاتی آزادی کے حق سے محروم نہیں رکھا جاسکتا ہے اور سپریم کورٹ نے زور دیا ہے کہ یہ طریقہ کار مناسب اور منصفانہ ہونا چاہئے اور جب ہم مناسب اور منصفانہ کہتے ہیں تو یہ تحقیقات، مقدمے کی سماعت و فیصلے اور سزا کی عملدرآمد سمیت تینوں مراحل پر ہونی چاہئے۔
این آئی اے ایکٹ کے معاملے میں مرکزی حکومت کو اپنی پسند کے مطابق خصوصی عدالت تشکیل دینے کے وسیع اور بے ضبط اختیارات تفویض کئے گئے تھے۔
این آئی اے ایکٹ کے تحت وسیع اور بے ترتیب اختیارات نے ایکٹ کے مخصوص استعمال کو فروغ دینے کے علاوہ من مانے طور پر اور پسند کے مطابق خصوصی عدالتیں تشکیل دیناشامل ہے۔
جسٹس مسعودی نے کہا کہ کشمیر ان خلاف ورزیوں کی جیتی جاگتی مثال ہے، جہاں لوگوں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے لیکن وہاں کوئی عدالت قائم نہیں اور انصاف کے متلاشی انصاف سے محروم رہ جاتے ہیں، دور دراز علاقوں کے لوگوں کو ایک سادہ درخواست کے لئے سینکڑوں کلومیٹر کی مسافت طے کرنی پڑتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دیگر ریاستوں میں این آئی اے ایکٹ کو سٹیٹ لسٹ میں مداخلت سے تعبیر کیا گیا ۔ جہاں تک جموں وکشمیر کی بات ہے، جہاں اس وقت سٹیٹ لسٹ نہیں، مرکز کی طرف سے دیئے گئے اختیارات کے علاوہ باقی تمام اختیارات ریاست کو حاصل ہیں اور اس بات کی مضبوط دلیل ہے کہ این آئی اے کا اطلاق ریاست پر نہ ہو۔