کشمیر کی پرآشوب تاریخ میں بارہمولہ کے مقبول شیروانی کا تذکرہ لازماً کیا جاتا ہے۔ مقبول شیروانی نے پاکستان سے حملہ آور ہوئے قبائلیوں کو بارہمولہ کے نزدیک غلط راستہ بتایا تھا جس سے ان کی سرینگر کی جانب پیش قدمی میں تاخیر ہوئی اور اسی دوران بھارتی فوج نے سرینگر کے ہوائی اڈے پر قبضہ کرلیا۔ قبائلیوں نے بعد میں 22 سالہ شیروانی کو ہلاک کردیا تھا۔
22 اکتوبر 1947 کو پاکستانی قبائلیوں نے سرحد عبور کر کے کشمیر پر حملہ کر دیا تھا جس کے فوراً بعد کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ سرینگر سے بھاگ گئے اور جموں پہنچ کر بھارت کی فوجی مدد طلب کی۔ 26 اکتوبر کو مہاراجہ نے بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کئے جس کے فوراً بعد بھارتی فوج نے پاکستانی قبائلیوں کے خلاف کارروائی شروع کی اور ایک طویل معرکے کے بعد انہیں واپس جانے پر مجبور کیا۔
مقبول شیروانی کو 1947 کے واقعات کا اہم کردار تصور کیا جاتا ہے۔ فوج نے ان کے نام پر یادگار بھی تعمیر کی ہے۔
بارہمولہ میونسپل کمیٹی کے چیئرمین توصیف رینا نے ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کے دوران وزیراعظم نریندر مودی اور امت شاہ سے اپیل کی 'مرحوم مقبول شیروانی' کے نام پر ایک یونیورسٹی بنائی جائے جہاں لوگوں کو اس بات سے باور کیا جائے کہ مقبول شیروانی نے ملک کی حفاظت کے لیے کتنی بڑی قربانی دی ہے۔
آج جب کشمیری باشندے ان قبائلیوں کے حملے کو یاد کرتے ہے تو وہیں ان حملوں کے دوران بارہمولہ سے تعلق رکھنے والے 22 سالہ نوجوان مقبول شیروانی کو بھی یاد کیا جاتا ہے۔ مقبول شیروانی نے بھارتی فوج کی مدد کر کے حملے کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: آزادی کی جدوجہد میں راجا سُریندر سنگھ اور ویر نارائن سنگھ کا کردار
مقامی لوگوں نے بتایا کہ جب پاکستان سے آئے قبائلیوں نے بارہمولہ میں تشدد شروع کیا تو مقبول شیروانی نے ان کا راستہ روک کر بھارتی فوج کی مدد کی اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے ملک کی حفاظت کے لیے اپنا حق ادا کیا۔
22 اکتوبر کو مقبول شیروانی کا دن منایا جاتا ہے اور بارہمولہ کا شیروانی ہال ان کے نام سے منسوب ہے جہاں ہر سال ان کی قربانی کو یاد کیا جاتا ہے۔