حکام کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر کی زمینی صورتحال میں بتدریج سدھار آنے لگا ہے چنانچہ اسی پس منظر میں 14 اکتوبر کی دوپہر سے پوسٹ پیڈ فون خدمات کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کے ساتھ ہی وادی کے تقریباً 40 لاکھ پوسٹ پیڈ نمبرات نے کام کرنا شروع کردیا۔
حکام نے 4 اور 5 اگست کی درمیانی رات سے جموں و کشمیر میں تمام مواصلاتی رابطوں کو معطل کیا تھا جس کے چند گھنٹوں بعد پارلیمان میں ریاست کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کئے جانے اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا گیا۔
مواصلاتی رابطوں پر پابندی کے فیصلے پر مقامی اور بین الاقوامی سطح پر حکومت کی کافی نکتہ چینی کی گئی۔
مواصلاتی رابطے کی جذوی بحالی کے بعد اب کشمیری عوام کے لیے ایک نئی پریشانی سامنے آرہی ہے۔ آؤٹ گوئنگ کال کرنے کے لیے زیادہ تر افراد پریشان ہیں، موبائل کمپنیوں نے صارفین کو بل بھیجا ہے، بل جمع نہ ہونے کے سبب ان کی آؤٹ گوئنگ کال بند کر دی گئی ہے۔
واضح رہے کہ وادی میں ابھی تک انٹرنیٹ خدمات بحال نہیں کی گئی ہیں، جس کی وجہ سے لوگ بل جمع نہیں کر پارہے ہیں۔
وہیں خدمات بحال ہونے سےلوگوں کو کافی راحت ملی ہے، 72 دنوں بعد لوگ اپنے جاننے والوں سے اب خیریت دریافت کر پارہے ہیں، ان میں کچھ افراد ایسے بھی ہیں جن کے رشتے دار بیرون ملک میں مقیم ہیں، تو ان سے بات چیت بھی شروع ہوگئی ہے۔
وادی میں تقریباً 70 لاکھ موبائل کنکشن ہیں، ان میں سے 40 لاکھ پوسٹ پیڈ فونز نے کام کرنا شروع کیا ہے اور 30 لاکھ پری پیڈ فون فی الحال بند ہیں۔
ابھی تک انٹرنیٹ خدمات کو لے کر کوئی بات نہیں ہوئی ہے کہ کب تک انٹرنیٹ خدمات شروع کی جائیں گی۔
وہیں حکام کا کہنا ہے کہ وادی میں سبھی طرح کی معطل خدمات کو سلسلے وار طریقے سے شروع کیا جارہا ہے، گذشتہ مہینے لینڈ لائین خدمات شروع ہوئی تھیں۔
گورنر ستیہ پال ملک نے مواصلاتی خدمات بند ہونے کے پیش نظر کہا تھا کہ 'کشمیری عوام کی حفاظت زیادہ ضروری ہے، نہ کہ موبائل خدمات۔ موبائل فون کا استعمال عسکریت پسند بھیڑ جمع کرنے کے لیے کرتے ہیں اور لوگ پہلے بھی بنا ٹیلی فون کے رہتے تھے۔ ہمارے لیے ایک کشمیری کی زندگی زیادہ ضروری ہے نہ کہ ٹیلی فون'۔