لیکن گزشتہ ہفتے یوم اطفال اور یوم صحافت کے حوالے سے جہاں عالمی سطح پر مختلف تقاریب اور ریلیوں کا اہتمام کیا گیا تاہم یونین ٹیریٹری جموں و کشمیر میں ان دونوں پر کوئی تقریب منعقد نہیں کی گئی۔
رواں ماہ 14نومبر کو عالمی سطح پر یوم اطفال منایا گیا اور حقوق اطفال سے متعلق جانکاری عام کرنے کے لیے مختلف پروگراموں، تقاریب، سیمناروں اور ریلیوں کا اہتمام کیا گیا۔ وہیں مزدوری کی بدعت کا قلع قمع کرنے کے لئے عام لوگوں تک جانکاری بھی پہنچائی گئی لیکن جموں و کشمیر میں یوم اطفال پر نہ تو کوئی تقریب ہی انجام دی گئی اور نہ ہی کوئی بیداری پروگرام کا اہتمام ہی کیا گیا۔
نامساعد حالات کے سبب عام لوگوں کے ساتھ ساتھ کشمیر میں بچے بھی بہت زیادہ متاثر ہو چکے ہیں۔ بچوں کی تعلیم کے علاوہ ان کے کھیل کود کی سرگرمیوں پر بھی بُرا اثر پڑا ہے جبکہ کرفیو، بندشوں، ہڑتال اور مار دھاڑ کے واقعات رونما ہونے سے یہاں بچوں کے اذہان پر بھی منفی اثرات مرتب ہو چکے ہیں۔
وہیں غیر یقینی صورتحال کے چلتے مالی مشکلات سے دوچار کنبوں میں زیر پرورش بچے اپنے والدین کو راحت دینے کے لئے مختلف کاموں میں بھی لگ گئے ہیں جس کے نتیجے میں کشمیر میں بچہ مزدوری کا رجحان کافی حد تک بڑھ چکا ہے اور ان حالات کو ملحوظ رکھ کر یوم اطفال منانے کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ لیکن ان تمام چیزوں کو درکنار کرتے ہوئے یوم اطفال نہیں منایا گیا۔
دوسری جانب 16نومبر کو یوم صحافت کے حوالے سے بھی یہاں پر کوئی خاص تقریب منعقد نہیں کی گئی۔ اگر چہ اس دن گرمائی دارلحکومت سرینگر سمیت وادی کے دیگر اضلاع میں بھی مختلف پروگراموں اور تقاریب کا اہتمام ہوتا تھا اور صحافت میں نمایاں اور بہترین کارکردگی انجام دینے والے صحافیوں کی حوصلہ افزائی کے لئے انہیں انعامات اور اسناد سے نوازا جاتا تھا لیکن جموں و کشمیر یونین ٹریٹری بننے کے بعد پہلی بار اس طرح کی کسی بھی تقریب کا انعقاد نہیں کیا گیا جو لمحہ فکریہ ہے۔
بہر حال، ان خاص دنوں کو منانے کا مقصد لوگوں میں بیداری پیدا کرکے اپنی ذمہ داری کا احساس و ادارک کرانا ہوتا ہے وہیں ان مواقع پر حوصلے کے طور پر انعام و اکرام سے نوازنے سے مختلف شعبہ جات میں لوگ مزید نمایاں کام انجام دینے کی فکر اور تگ و دو میں رہتے ہیں۔