سری نگر: وادی کشمیر کے نوجوان جہاں سول سروس امتحانات سے لے کر کھیل کے میدان تک مختلف شعبہ ہائے حیات میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں، وہیں وہ موسیقی کی دنیا میں بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ شمالی کشمیر کے سنگ پورہ پٹن سے تعلق رکھنے والے عادل منظور شاہ ایک ایسے نوجوان گلو کار ہیں جنہوں نے نہ صرف سوشل میڈیا پر دھوم مچا رکھی ہے بلکہ انہوں نے ملک و بیرون ملک بھی اپنا اور اپنے وطن کشمیر کا نام روشن کیا ہے۔ folk music in Kashmir
عادل منظور وادی کے معروف گلو کار و موسیقار منظور احمد شاہ کے فرزند ہیں اور انہوں نے اپنے والد سے متاثر ہو کر گلو کاری کے شعبے کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ سوشل میڈیا پر لوگ ان کے کشمیری زبان میں گائے جانے والے گانوں کے ویڈیوز کو لاکھوں کی تعداد میں دیکھتے اور پسند کرتے ہیں جس سے ان کی مقبولیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ موصوف نوجوان گلو کار نے محکمہ اطلاعات و رابطہ عامہ کے خصوصی پروگرام ‘سکون‘ میں اپنے تجربے اور زندگی کی دیگر کامیابیوں پر تفصیلی گفتگو کی۔ Aadil Manzoor is working for reviving of folk music
انہوں نے کہا کہ ’میں دیکھتا تھا کہ جب میرے والد منظور احمد شاہ شادی یا دیگر تقریبات میں گاتے تھے تو لوگ ان کی بہت عزت کرتے تھے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے سوچا کہ اگر میں کسی دوسرے شعبے میں جا کر ایک لاکھ روپیہ ماہانہ بھی کماؤں گا تب بھی اتنی عزت کہیں نہیں ملے گی اور پھر میں نے بھی اسی شعبے میں جانے کی ٹھان لی‘۔ عادل منظور نے کہا کہ پہلے میں موسیقی کے آلات جیسے مٹکے، تمبکناری وغیرہ بجاتا تھا اور اس کے بعد میں نے گانے کپموز کرنا شروع کیے اور پھر گلو کاری کے میدان میں قدم رکھا۔ Aadil Manzoor a Promising singer of Kashmir Valley
انہوں نے کہا کہ ’جب میں شادی کی تقاریب میں اپنے والد کا گانا سننے کے لیے جاتا تھا تو وہ مجھے ڈانٹتے تھے اور پڑھائی کرنے کی تلقین کرتے تھے‘۔ انہوں نے کہا کہ ’میں نے اپنی زندگی کا پہلا گانا وادی کے معروف صوفی شاعر وہاب کھار صاحب کے گاؤں کھریو شار پانپور میں گایا‘۔ عادل بشیر نے ملک کی بیشتر ریاستوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرکے موسیقی کے عاشقوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔
انہوں نے کہا کہ ملک کی کچھ ہی ایسی ریاستیں ہیں جہاں میں نے اپنے فن کا مظاہرہ نہ کیا ہو۔ گذشتہ سال عالمی ٹور بھی تھا لیکن وہ کورونا وبا کی وجہ سے ملتوی ہوگیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جہاں بھی میں گیا وہاں لوگوں نے مجھے کافی پسند کیا اور میری حوصلہ افزائی کی۔ موصوف گلوکار نے کہا کہ میں نے سال 2018 سے شادی کی تقاریب میں گانا گانے کے لیے جانا شروع کیا اس وقت میں کام ڈھونڈتا تھا لیکن اب کام اتنا بڑھ گیا ہے کہ میں دوسرے فنکاروں کو کام دے رہا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ موسیقی کی کوئی سرحد نہیں ہوتی ہے۔ لوگ فنکار کی محنت اور صلاحیت کو دیکھ کر اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے مارچ 2019 میں اپنا پہلا ویڈیو سوشل میڈیا پر ڈالا، اس وقت تین فالور تھے اور پھر میں نے جب سات دنوں نے بعد دیکھا تو فالورز کی تعداد 35 ہزار تک پہنچ گئی تھی‘۔ عادل منظور شاہ نے کہا کہ میں نے اس کے بعد یوٹیوب چینل بنایا اس پر اپنے گانے ڈالنے شروع کیے اور اس کے دو بلین فالورز ہیں۔
انہوں نے کہا کہ لوگ جب کام اور محنت دیکھتے ہیں تو وہ داد دیے بغیر نہیں رہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے ساتھ آج چھ افراد جڑے ہوئے ہیں جن کی روزی روٹی بھی چلتی ہے اور میری بھی۔ موصوف نے کہا کہ میں نے اپنا اسٹیڈیو قائم کیا ہے اور میں جتنا کماتا ہوں اس کا نصف میں اس اسٹیڈیو کو مزید بہتر و معیاری بنانے پر خرچ کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ والد کا نام کافی مدد دیتا ہے لیکن خود بھی محنت کرنے سے ہی کامیابیوں کی سیڑھی طے کی جاتی ہے۔ انہوں نے حکومت سے اس شعبے کی طرف متوجہ ہونے کی اپیل کی تاکہ اس کو مزید فروغ مل سکے اور وادی کے فنکاروں کو بھی ایک پلیٹ فارم میسر ہوسکے جہاں وہ اپنی صلاحیتوں کو نکھار سکیں۔
یہ بھی پڑھیں : Baking Entrepreneur of Kashmir: ملیے سید مہتاب منیر سے