جموں و کشمیر کے دارالحکومت سرینگر کے ضلع مجسٹریٹ نے محروس صحافی آصف سلطان پر پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کرکے ان کو جموں کے کوٹ بلوال جیل بھیج دیا ہے۔ آصف سلطان جن پر پولیس نے عسکریت پسندوں کے ساتھ منسلک ہونے کے الزام میں چار سال قبل ستمبر 2018 میں گرفتار کیا تھا، انہیں حالیہ دنوں عدالت نے چار برس کے بعد ضمانت دی تھی۔ تاہم ان کو پولیس نے رہا نہیں کیا تھا، بلکہ بٹہ مالو تھانے میں بند رکھا تھا اور آج ان پر پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کرکے ان کو دوبارہ قید کیا ہے۔ سرینگر کے ایس ایس پی راکیش بلوال نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ آصف سلطان پر پی ایس عائد کیا گیا ہے۔ ضلع مجسٹریٹ محمد اعجاز نے ان پر پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کیا ہے۔Asif Sultan booked under PSA After Getting Bail
سرینگر کے بٹہ مالو علاقے کے رہنے والے آصف سلطان ایک انگریزی جریدے 'کشمیر نیریٹر' کے ساتھ منسلک تھے۔ آصف کی شادی سنہ 2016 میں ہوئی تھی اور ان کی تقریباً چار سالہ بیٹی بھی ہے۔ آصف کو اکتوبر سنہ 2019 میں انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ پولیس کا دعویٰ تھا کہ آصف کو پیشہ وارانہ خدمات انجام دینے کے لیے نہیں بلکہ عسکریت پسندوں کی حمایت اور انہیں پناہ دینے کے لیے گرفتار کیا گیا۔
گرفتاری سے قبل آصف نے حزب المجاہدین کے ہلاک شدہ کمانڈر برہان وانی پر ایک تحقیقی مضمون لکھا تھا اور ان کے کئی ساتھیوں کے ساتھ ملاقات کی تھی۔ باور کیا جاتا ہے کہ یہی مضمون ان کی گرفتاری کی وجہ بنا، حالانکہ پولیس نے اس بات سے انکار کیا ہے۔ آصف کی رہائی سے متعلق 400 شخصیات نے وزیر اعظم نریندر مودی کے نام ایک مکتوب بھی لکھا تھا۔
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ برس کلونی فاؤنڈیشن فار جسٹس نے آصف کے مقدمے کی سماعت کی نگرانی کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ آصف سے قبل سرینگر کے مجسٹریٹ محمد اعجاز نے صحافی اور 'دی کشمیر والا' کے مدیر فہد شاہ پر بھی پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کیا ہے اور ان کو کواڑہ جیل میں قید کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عالمی ادارہ کشمیری صحافی آصف سلطان کی حمایت میں