شعبہ سریکلچر کی اس پہل سے کسانوں میں دلچسپی بڑھتی نظر آرہی ہے۔ اس صنعت سے وابستہ افراد اس منفرد پہل کی ستائش کر رہے ہیں۔
ایک زمانے میں ریشم کی صنعت کشمیر کی اقتصادیات کا ایک اہم حصہ ہوا کرتی تھی۔ لیکن گزشتہ کئی دہائیوں سے حکومتی عدم توجہی کے باعث یہ صنعت تنزلی کا شکار ہے۔
کم محنت سے زیادہ نفع دینے والی یہ صنعت لاکھوں لوگوں کے لیے آمدنی کا اہم ذریعہ ہوا کرتی تھی۔
یونیورسٹی کی جانب سے شروع کی گئی اس پہل سے کسانوں میں ایک نئی امید کی کرن نظر آ رہی ہے۔
وہی سریکلچر شعبہ ان کسانوں کو تمام تر سہولیات فراہم کرنے کی یقعین دہانی کر ہی ہے۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ سریکلچر شعبے نے انہیں جدید قسم کہ پالی ہاؤس مفت میں دستیاب کیا جارہا ہے جس سے ریشم پیدا کرنے میں مزید دلچسپی بڑھے گی اور ریشم کی پیداورا میں بھی دوگنا اضافہ ہوگا۔
سریکلچر شعبہ کے محققین کا کہنا ہے کہ انہوں نے کسانوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے پالی ہاؤس مفت فراہم کئے تاکہ ریشم کی صنعت کو پھر سے زندہ کیا جاسکے۔
خیال رہے کہ ریشم کے کیڑے 30 سے 35 دن میں ریشم پیدا کر دیتے ہیں۔