جموں و کشمیر انتظامیہ کے پرنسپل سکریٹری منوج کمار دویدی Manoj Kumar Dwivedi کی طرف سے جاری کردہ ایک حکمنامے کے مطابق "مہاراجہ ہری سنگھ کے یوم پیدائش پر Maharaja Hari Singh's Birthday تعطیل منانے کے لیے انتظامیہ نے نیگوشیبل انسٹرومنٹ ایکٹ 1881کے تحت ایک کمیٹی کو آئین کے مطابق منظوری دی ہے۔
آڈر کے مطابق پرنسپل سیکرٹری جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ Principal Secretary General Administration Department کو کمیٹی کا چیئرمین مقرر کیا گیا ہے جبکہ ایڈمنسٹریٹو سیکرٹری محکمہ سماجی بہبود، انتظامی سیکرٹری محکمہ ثقافت اور ڈویژنل کمشنر جموں کو ممبران کے طور پر مقرر کیا گیا ہے۔
حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ کمیٹی جب بھی ضرورت ہو کسی دوسرے رکن یا ارکان کو شریک کر سکتی ہے۔
جموں صوبے میں کافی عرصے سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ ہری سنگھ کے یوم پیدائش پر عام تعطیل کی جائے۔
ہندو قوم پرست جماعتیں اس مطالبے کو ڈوگروں کے تفاخر کے ساتھ جوڑتی ہیں۔مہاراجہ ہری سنگھ 23 ستمبر 1895 کو جموں شہر میں پیدا ہوئے اور ان کا انتقال 26 اپریل 1961 کو ممبئی میں ہواتھا۔
کشمیر میں پاکستان کی طرف سے حملہ آور ہوئے قبائلیوں کی آمد کے بعد ہری سنگھ اکتوبر 1947 میں سرینگر سے فرار ہوئے تھے جس کے بعد انہوں نے جموں پہنچ کر بھارت کے ساتھ دستاویز الحاق پر دستخط کئے۔ ہری سنگھ کے الحاق کے بعد بھارتی فوج کشمیر میں داخل ہوئی لیکن اس سے قبل قبائلیوں نے پونچھ اور بارہمولہ کے ایک وسیع علاقے کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ یہ علاقہ اب پاکستان کے کنٹرول میں ہے۔
ہری سنگھ کے یوم پیدائش پر تعطیل کی تجویز پر کشمیر میں منفی ردعمل سامنے آیا ہے۔ سابق وزیر اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما نعیم اختر نے طنزیہ انداز میں ایک مطلق العنان حکمران کے یوم پیدائش پر تعطیل کو آزادی کا مہا امرت اتسو قرار دیا۔
کشمیر میں ڈوگرہ دور حکومت کو انتہائی ظالمانہ اور جابرانہ قرار دیا جاتا ہے۔ مہاراجہ ہری سنگھ کے دور حکومت میں ہی 13 جولائی 1931 کو سرینگر کے سینٹرل جیل علاقے میں 22 مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا جو ایک افغان سیاح عبدالقدیر کےخلاف مقدمے کے سماعت کے لیے جمع ہوگئے تھے۔ قدید نے جامع مسجد سرینگر میں ڈوگرہ حکومت کے خلاف تقریر کی تھی اور مقامی مسلمانوں کو علم بغاوت بلند کرنے کی ترغیب دی تھی۔
قابل ذکر ہے کہ جموں و کشمیر میں جمہوری نظام قائم ہونے کے بعد 13 جولائی کو یوم شہداء کے طور منایا جاتا تھا لیکن 5 اگست 2019 کے بعد سے گورنر انتطامیہ نے اس تعطیل کو رد کردیا ہے۔
ہری سنگھ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خود آزاد اور خود مختار جموں و کشمیر کے حامی تھے ۔ سرینگر سے فرار ہونے کے بعد ان کا اقتدار ختم ہوا تاہم جمہوری نظام قائم ہونے کے بعد ان کے فرزند ڈاکٹر کرن سنگھ کو جموں و کشمیر کا صدر ریاست مقرر کیا گیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب کشمیر کی اندرونی خودمختاری بحال تھی اور یہاں کا نظم و نسق وزیر اعظم چلاتے تھے۔
ہری سنگھ کے جموں پہنچنے کے بعد 1947 میں جموں میں بھیانک فرقہ وارانہ فسادات ہوئے جن میں ہزاروں افراد کا قتل عام کیا گیا۔ اس قتل عام کے بعد جموں شہر میں آبادی کا تناسب بھی تبدیل ہوگیا۔ بیشتر مسلمان ہجرت کرکے پاکستان بھی چلے گئے۔
مزید پڑھیں:مہاراجہ ہری سنگھ کے یوم پیدائش پر سرکاری تعطیل ہوگی؟
ایک سینئر صحافی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ کشمیر میں یوم شہداء کی تعطیل کو رد کرنے اور ہری سنگھ کے یوم پیدائش پر تعطیل منانے کی تجویز پر کمیٹی بٹھانے کے اقدامات ایک مخصوص نقطۂ نظر کی پیروی کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس کا مقصد جموں و کشمیر میں اکثریتی آبادی کو نفسیاتی طور مغلوب کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے اقدامات سے تاریخی حقائق کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت ایک جمہوری ملک ہے اور 1947 میں ایک عوامی مزاحمت کے بعد برطانوی سامراج سے آزادی ملی تھی اور شخصی راج کا خاتمہ ہوا تھا۔ اب ان شخصی حکمرانوں کو عظمت کے ہار پہنانا، جمہوری نظام کی توہین ہے۔