ETV Bharat / city

میاں قیوم کی رہائی چھ اگست کو متوقع

عدالت عظمیٰ نے رواں مہینے کی 23 تاریخ کو معاملے کی سنوائی ملتوی کی تھی جب تُشار مہتا نے دعویٰ کیا تھا کہ انتظامیہ قیوم کے معاملے پر غور و فکر کر رہی ہے۔

میاں قیوم کی رہائی چھ اگست کو متوقع
میاں قیوم کی رہائی چھ اگست کو متوقع
author img

By

Published : Jul 27, 2020, 7:23 PM IST

مرکزی حکومت نے پیر کے روز عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ جموں و کشمیر بار ایسوسی ایشن کے صدر میاں عبدالقیوم کو رواں برس 6 اگست کو رہا کیا جائے گا کیونکہ اس دن ان پر عائد پبلک سیفٹی ایکٹ کی مدت مکمل ہوتی ہے۔

جسٹس سنجے کشن کول، آجے رستوگی اور انیرودھا بوس پر مبنی عدالت عظمیٰ کی بینچ نے آج قیوم کی رہائی کے تعلق سے سماعت کے دوران معاملے کی اگلی تاریخ رواں مہینے کی 29 تاریخ کو مقرر کی۔

سماعت کے دوران سالیسٹر جنرل تُشار مہتا نے عدالت کو بتایا کہ "پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت قیوم کی زیر حراست رہنے کی مدت اگست کے مہینے کی 6 تاریخ کو مکمل ہو رہی ہے۔ اور اس کے بعد ان پر عائد پی ایس اے میں مزید اضافہ نہیں کیا جائے گا۔"

اس سے قبل سینئر وکیل دوشانت داوے اور ورندھا گروور نے قیوم کی پیروی کرتے ہوئے عدالت کو اس بات کی اور راغب کیا کہ "قیوم کو زیر حراست رکھنا ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔"

عدالت کی بینچ نے دونوں طرف کی دلیلیں سننے کے بعد سالیسٹر جنرل مہتا کو ہدایت دی کہ وہ قیوم کو چھ اگست سے قبل ضمانت پر رہائی کے تعلق سے انتظامیہ سے ہدایت حاصل کریں اور معاملے پر اگلی سماعت سے پہلے عدالت کو اطلاع کریں۔ جس پر مہتا نے عدالت کو یقین دہانی کرائی اس تعلق سے جلد ہی بینچ کو مطلع کیا جائے گا۔

قابل ذکر ہے کہ عدالت عظمیٰ نے رواں مہینے کی 23 تاریخ کو معاملے کی سنوائی ملتوی کی تھی جب تُشار مہتا نے دعویٰ کیا تھا کہ انتظامیہ قیوم کے معاملے پر غور و فکر کر رہی ہے۔

دلیل کا جواب دیتے ہوئے داوے کا کہنا تھا کہ "اگر مہتا چاہیں تو 24 گھنٹوں کے اندر اندر وہ انتظامیہ سے ہدایت حاصل کر سکتے ہیں۔ ایسے مسائل میں تاخیر کرنا صحیح بات نہیں۔"

تاہم عدالت کی بینچ نے مہتا کو رواں مہینے کی 29 تاریخ تک کی مہلت فراہم کی۔

واضح رہے قیوم کئی امراض میں مبتلا ہیں اور دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد سے ہی زیرحراست ہیں۔

28 مئی کو جموں کشمیر ہائی کورٹ کی ڈویژن بینچ نے قیوم کی رہائی کے لیے دائر کی گئی عارضی کو خارج کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا کا نظریہ ابھی تبدیل نہیں ہوا ہے۔ اگر وہ انتظامیہ کو یقین دلا سکتے ہیں کہ وہ اب اس نظریہ سے اتفاق نہیں رکھتے تب تک انتظامیہ تک ہے کہ وہ انہیں رہا کریں کہ یا نہیں۔

اس کے بعد رواں مہینے کی پندرہ تاریخ کو عدالت عظمیٰ کی بینچ نے مہتا سے سوال کیا تھا کہ" عالمی وبا عروج پر ہے۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ انہیں کب تک زیرحراست دہلی کے تہاڑ جیل میں رہنا ہوگا؟ ان کی پی ایس اے کی مدت بھی مکمل ہونے والی ہے۔"

عدالت نے مزید لکھا تھا کہ "قیوم کے خلاف جو بھی مقدمہ درج ہے وہ ماضی کے ہیں اور 2010 کے ہیں۔ کیا اس کے بعد بھی انہیں حراست میں رکھنا ضروری ہے؟"

عدالت کے سوالوں کے جواب میں مہتا کا کہنا تھا کہ 'قیوم کا نظریہ قومی مفاد کے خلاف ہے۔ ان برسوں میں بھی ان کے خیالات بدلے نہیں ہیں۔'

مرکزی حکومت نے پیر کے روز عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ جموں و کشمیر بار ایسوسی ایشن کے صدر میاں عبدالقیوم کو رواں برس 6 اگست کو رہا کیا جائے گا کیونکہ اس دن ان پر عائد پبلک سیفٹی ایکٹ کی مدت مکمل ہوتی ہے۔

جسٹس سنجے کشن کول، آجے رستوگی اور انیرودھا بوس پر مبنی عدالت عظمیٰ کی بینچ نے آج قیوم کی رہائی کے تعلق سے سماعت کے دوران معاملے کی اگلی تاریخ رواں مہینے کی 29 تاریخ کو مقرر کی۔

سماعت کے دوران سالیسٹر جنرل تُشار مہتا نے عدالت کو بتایا کہ "پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت قیوم کی زیر حراست رہنے کی مدت اگست کے مہینے کی 6 تاریخ کو مکمل ہو رہی ہے۔ اور اس کے بعد ان پر عائد پی ایس اے میں مزید اضافہ نہیں کیا جائے گا۔"

اس سے قبل سینئر وکیل دوشانت داوے اور ورندھا گروور نے قیوم کی پیروی کرتے ہوئے عدالت کو اس بات کی اور راغب کیا کہ "قیوم کو زیر حراست رکھنا ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔"

عدالت کی بینچ نے دونوں طرف کی دلیلیں سننے کے بعد سالیسٹر جنرل مہتا کو ہدایت دی کہ وہ قیوم کو چھ اگست سے قبل ضمانت پر رہائی کے تعلق سے انتظامیہ سے ہدایت حاصل کریں اور معاملے پر اگلی سماعت سے پہلے عدالت کو اطلاع کریں۔ جس پر مہتا نے عدالت کو یقین دہانی کرائی اس تعلق سے جلد ہی بینچ کو مطلع کیا جائے گا۔

قابل ذکر ہے کہ عدالت عظمیٰ نے رواں مہینے کی 23 تاریخ کو معاملے کی سنوائی ملتوی کی تھی جب تُشار مہتا نے دعویٰ کیا تھا کہ انتظامیہ قیوم کے معاملے پر غور و فکر کر رہی ہے۔

دلیل کا جواب دیتے ہوئے داوے کا کہنا تھا کہ "اگر مہتا چاہیں تو 24 گھنٹوں کے اندر اندر وہ انتظامیہ سے ہدایت حاصل کر سکتے ہیں۔ ایسے مسائل میں تاخیر کرنا صحیح بات نہیں۔"

تاہم عدالت کی بینچ نے مہتا کو رواں مہینے کی 29 تاریخ تک کی مہلت فراہم کی۔

واضح رہے قیوم کئی امراض میں مبتلا ہیں اور دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد سے ہی زیرحراست ہیں۔

28 مئی کو جموں کشمیر ہائی کورٹ کی ڈویژن بینچ نے قیوم کی رہائی کے لیے دائر کی گئی عارضی کو خارج کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا کا نظریہ ابھی تبدیل نہیں ہوا ہے۔ اگر وہ انتظامیہ کو یقین دلا سکتے ہیں کہ وہ اب اس نظریہ سے اتفاق نہیں رکھتے تب تک انتظامیہ تک ہے کہ وہ انہیں رہا کریں کہ یا نہیں۔

اس کے بعد رواں مہینے کی پندرہ تاریخ کو عدالت عظمیٰ کی بینچ نے مہتا سے سوال کیا تھا کہ" عالمی وبا عروج پر ہے۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ انہیں کب تک زیرحراست دہلی کے تہاڑ جیل میں رہنا ہوگا؟ ان کی پی ایس اے کی مدت بھی مکمل ہونے والی ہے۔"

عدالت نے مزید لکھا تھا کہ "قیوم کے خلاف جو بھی مقدمہ درج ہے وہ ماضی کے ہیں اور 2010 کے ہیں۔ کیا اس کے بعد بھی انہیں حراست میں رکھنا ضروری ہے؟"

عدالت کے سوالوں کے جواب میں مہتا کا کہنا تھا کہ 'قیوم کا نظریہ قومی مفاد کے خلاف ہے۔ ان برسوں میں بھی ان کے خیالات بدلے نہیں ہیں۔'

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.